(عابد حسین راتھر)
امانت داری ایک ایسا خاص اور اہم وصف ہے جس کی اہمیت اور افادیت کے عوض قران و احادیث میں بار بار اور زور و شور کے ساتھ اس کی تلقین کی گئی ہے۔ چاہے سیاسی پہلو ہو یا معاشی، سماجی تعلقات کا مسئلہ ہو یا گھریلو تعلقات کا، امانت داری کا تعلق زندگی کے ہر ایک شعبہ کے ساتھ منسلک ہے۔ عام طور پر امانت داری کا مطلب ایمانداری، بھروسہ اور اعتماد کے معنٰی میں لیا جاتا ہے لیکن جدید سیاسی و سماجی علوم میں امانت داری کو سماجی ہم آہنگی، سیاسی استحکام اور امن و آشتی کیلئے بنیادی شرط اور اہم ضرورت مانا جاتا ہے۔ جدید فلسفی، طبیعیات دان اور سیاسی علوم کے ماہر جان لاک کا کہنا ہے کہ کامیاب سیاست اور پرامن معاشرے کیلئے امانت داری/اعتماد ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں جدید اور مغربی دنیا کے بیشتر سیاسی اور سماجی نظریات امانت داری کے تصور پر مبنی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک بات واضع کرنی بہت ضروری ہے کہ امانت داری کے جدید سماجی تصور اور اسلامی تصور کے بنیادی فلسفہ اور تحریک میں نمایاں فرق ہے جن کے اثرات عملی طور پر ان تحریکات میں صاف نظر آتے ہیں۔ ماہر سماجیات وسیاسیات کے نزدیک اگرچہ جدید مغربی دنیا میں سب سے زیادہ زور امانت داری اور اعتماد پر دیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی دنیا میں یہ وصف آئے روز گھٹتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا میں بھی قرآن و حدیث کی غیر معمولی تلقین کے باوجود بھی امانت داری کے وصف پر سیاسی و سماجی سطحوں پر عملی طور پر کچھ خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اگرچہ ایک طرف امانت داری کا مطلب انفرادی سطح پر ایک دوسرے کا بھروسہ قائم رکھنا ہے وہی دوسری طرف اجتماعی طور پر کسی تنطیم یا حکومت کے منتظمین اور نگران پر اعتماد اور بھروسہ ہونا بھی امانت داری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امانت داری تجارت کی بھی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ کسی بھی سماج یا کسی بھی حکومت، ادارے یا تنطیم کی ترقی کا دار ومدار اس سے وابستہ افراد کی امانت داری پر منحصر ہوتا ہے۔
امانت داری اور فرمان الٰہی:
امانت داری کا لفظ عربی زبان کے 'امانه' لفظ سے ماخوذ ہے۔ لغت میں امانه کا مطلب اعتبار، ایمانداری، امن اور تحفظ ہے۔ لہذا مختصر طور پر امانت داری کا مطلب ہے ضروری کام کو ایمانداری کے ساتھ انجام دینا، اپنی ذمہ داریاں موثر طریقے سے نبھانا اور مختلف اقسام کے خوف و ہراس کو ختم کرنا ہے۔ امانت داری کے اس تعریف کو مدنظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر قسم کے خاندانی، دینی، سماجی، سیاسی اور معاشی فرائض اور ذمہ داریوں کو بہتر اسلوب اور ایمانداری کے ساتھ انجام دینا امانت داری ہے۔ قران میں بار بار امانت داری کا ذکر آیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے-
"تو جو امین بنایا گیا اس کو چاہئے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہے کہ اپنے اللّٰہ سے ڈرے“ (بقرة: 283)
ایک اور جگہ اللّٰہ تعالی فرماتے ہے-
"اللّٰہ تعالٰی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو" (النساء- 58)
اسی طرح سورۃ الانفال کی ستائیسویں آیت میں اللّٰہ کا ارشاد ہے-
اے ایمان والو تم اللّٰہ اور رسولﷺ (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابلِ حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو۔
سورۃ المائدہ کی پہلی ہی آیت میں اللّٰہ تعالٰی ایمان والو کو عہد وپیمان پورے کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اسی طرح اور کئی جگہوں پر قرآن مجید میں امانت داری کی تلقین کی گئی ہے اور جب ہم ان تمام آیات کا جائزہ کرتے ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید میں امانت داری اور اعتماد کے رویہ کا مظاہرہ کرنے کا حکم دو سطحوں پر آیا ہے۔ ایک اللّٰہ اور اس کے بندے کے درمیان اور دوسرا اللّٰہ کے بندوں کا آپسی معاملات میں۔ لہذا ہر فرد پر یہ واجب ہے کہ وہ اللّٰہ کے تئیں اور دوسرے بندوں کے ساتھ امانت داری، ایمانداری اور اعتماد کا مظاہرہ کرے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تمام انسانوں کے آپسی معاملات تبھی خوشگوار اور تسلی بخش ہو سکتے ہیں جب وہ آپس میں امانت دار اور قابل اعتماد رہینگے۔ ہمیں ہمیشہ یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ذات یا کوئی شخص ہمارے پاس کوئی چیز یا کوئی راز کی بات بطور امانت رکھتا ہے تو وہ اس چیز یا راز کے ساتھ ہمارے پاس اپنا اعتبار اور بھروسہ بھی رکھتا ہے جس کی حفاظت کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فرض ہے۔ اس تناظر میں ہماری جان، ہماری عقل اور علم و فہم ہمارے پاس اللّٰہ کی امانت ہے لہذا ان سب کو اچھے کاموں اور اللّٰہ کی رضا کیلئے استعمال کرنا ہم پر فرض ہے اور ان چیزوں کو غلط اور بے سود کاموں میں صرف کرنا امانت میں خیانت ہوگی۔
امانت داری اور سنت نبویﷺ:
رسول اللّٰہ ﷺ کی سنت سے ہمیں یہ بات بلکل واضع ہوتی ہے کہ آپﷺ نے امانت داری کی بہت تاکید کی ہے اور امانت میں خیانت کی ممانعت فرمائی ہے۔ رسول اکرمﷺ نے امانت داری کو ایمان کی علامت اور پہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے- جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ (سنن بیھقی-12690) ۔ آپﷺ نے امانت داری کو ایک فرد اور سماج دونوں کیلئے کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اللّٰہ کی طرف سے نبوت عطا کرنے سے پہلے بھی آپﷺ کو لوگ امین ( امانت دار، قابل اعتماد) اور صادق کہہ کر پکارتے تھے۔ حدیث کی کتابوں میں آیا ہے کہ آپﷺ نے امانت داری کو ایک سچے مومن کی علامت بتاکر فرمایا ہے کہ ایک منافق کی تین نشانیاں ہوتی ہے- اول جھوٹ بولنا، دوم وعدہ خلافی کرنا اور سوم امانت میں خیانت کرنا (ترمذی-2631)۔ امام مالک فرماتے ہے کہ جب حکیم لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ کے اتنے اونچے مقام تک پہنچنے کا کیا راز ہے تو آپ نے جواب دیا، سچ بولنا، امانت داری اور فضول باتوں سے پرہیز۔
امانت داری اور معاشرتی پائیداری:
کسی بھی معاشرے کی ترقی، امن اور پائیداری کیلئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں کا آپس میں امانت داری اور اعتماد کا رشتہ قائم ہو۔ جرمنی کے مشہور ماہر سماجیات جارج سِمل کا کہنا ہے کہ کسی بھی سماج کے مختلف افراد کو آپس میں جوڑے رکھنے کیلئے ان کا آپس میں بھروسہ اور اعتماد ہونا ضروری ہے۔ معاشرتی اثاثوں میں بہترین اثاثہ امانت داری (بھروسہ اوراعتماد) ہے اور یہ اثاثہ سماجی بہبودی، معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کیلئے بنیادی ضرورت ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ کسی بھی سماج میں امانت داری کی کمی اس سماج کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔ اسی بات کو بیسویں صدی کی مشہور ماہر سماجیات سِسّیلا بُک اپنے الفاظوں میں کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ امانت داری ایک اہم سماجی اثاثہ ہے اگر کسی سماج میں یہ اثاثہ ختم ہوجائے تو وہ سماج تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
امانت داری اور سیاسی انتظامیہ:
سیاسی انتظامیہ کی کامیابی کیلئے امانت داری کا وصف ہونا ناگزیر ہے اور اس بات کی تاکید جدید سیاسی علوم اور اسلامی علوم دونوں میں کی گئی ہے۔ مشہور ماہر سیاسیات پٹنام کے مطابق اعتماد اور امانت داری سیاسی اور سماجی استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق عوام کیلئے قابل اعتماد حکومت ہی قابل اطمینان حکومت ہوتی ہے کیونکہ عوام ہمیشہ امانت دار اور قابل بھروسہ حکومت کو ہی پسند کرتی ہیں۔ امام تیمیہ فرماتے ہے کہ ایک حکمران کی کامیابی کیلئے اس کا عادل اور امانت دار ہونا لامُحالہ ہے۔
امانت داری اور معاشی ترقی:
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو مصری حکومت کے اہم شعبہ یعنی معشیت کی ذمہ داری سونپی گئی تو اللّٰہ تعالٰی ان کی کامیابی کی اہم وجہ ان کی امانت داری اور ایمانداری کے وصف کو قرار دیتے ہے۔ اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 76 میں اللّٰہ تعالی کا فرمان ہے کہ معاشی معاملات میں امانت داری کا رویہ اختیار کرنا تقویٰ کی بہترین مثال ہے۔ لہذا کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کیلئے عوام اور حکومت دونوں کا معاشی معاملات میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ نتیجتاً معاشی معاملات میں خیانت اور بے ایمانی معاشرے میں بدعنوانی اور رشوت خوری کو جنم دیتی ہے جو بالآخر سماج کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔
خلاصہ:
امانت داری ایک اہم اور اعلٰی انسانی وصف ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں بار بار آیا ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور سماجی ترقی کا تصور کرنا بے معنی اور ناممکن ہے۔ انسانوں کے آپسی رشتے اور بندے کا اللّٰہ کے ساتھ رشتے کی مظبوطی کا دارومدار بھی اسی وصف پر ہے کیونکہ سب سے مظبوط رشتہ بھروسے اور اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے۔ چاہے ہم کسی فرد، کسی خاندان یا کسی معاشرے کا تذکرہ کرے، ان سب کی ترقی امانت داری اور اعتماد پر منحصر ہے۔ خاندان، سماج اور حکومت کی پائیداری کیلئے امانت داری جُزِ لاینفک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی معاشروں میں امانت داری کا گراف دن بدن گھٹتا جا رہا ہے کیونکہ وہاں مادیت کی وجہ سے اس وصف کو قائم رکھنے کے محرکات نا کے برابر ہے۔ یہی ایک بنیادی وجہ ہے وہاں آپسی رشتے کمزور ہوتے جارہے ہیں اور خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس مسلم معاشروں میں امانت داری کے پیچھے بہت سارے دینی اور اخلاقی محرکات ہے جن کی بنیاد پر کوئی بھی ذِی حس مسلمان کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا ہے نا ہی کسی کا بھروسہ توڑ سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے پر وہ منافقین کے صف میں شامل ہو جائے گا۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comment:
Post a Comment