(عالمی یومِ خواتین)
ہر سال 8 مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہیں اور دنیا کے ہر ایک کونے میں اِس عنوان کے تحت مختلف پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں۔ کہیں پر خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو کہیں پر جنسی مساوات اور صنفِ نازک کی آزادی کے بارے میں تقاریر کی جاتی ہے۔ جب ہم عالمی یومِ خواتین منانے کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کا آغاز 1908ء میں نیو یارک شہر سے ہوا تھا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کیلئے مارچ کیا۔ کلارا زتکن نامی خاتون نے اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا کام کیا جب انھوں نے 1910ء میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنھوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔ پھر 1911ء میں پہلی بار آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں یومِ خواتین منایا گیا۔ اس کے بعد 1975ء میں اقوام متحدہ نے عالمی یومِ خواتین کو سرکاری طور پر تسلیم کرکے اس کو باقاعدہ طور پر منانا شروع کیا۔
اگرچہ مجموعی طور پر ہر سال اس مخصوص دن کو مناتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور ہر سال مختلف ممالک میں اس خاص دن کو مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ کہیں پر قومی تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے تو کہیں پر خواتین کو ان کی کامیابیوں کیلئے انعامات سے نوازا جاتا ہیں یا پھر کہیں پر خواتین کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے جاتے ہیں لیکن اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جائے، ان کی عزت وعصمت کو محفوظ رکھا جائے، جنسی اور گھریلو تشدد سے ان کی حفاظت کی جائے اور ان کے مختلف مسائل پر غور کیا جائے، لیکن ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ایسے مخصوص موقع پر آج کل کے جدید، مہذب اور ترقی پسند دنیا کا خواتین کے تئیں کئے جانے والے برتاؤ پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔ جن مغربی ممالک میں اِس دن کے منانے کی تحریک شروع ہوئی انہیں ممالک کے بازاروں میں آج جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر عورت کی عصمت کو نیلام کیا جارہا ہے۔ عورت کو آزادی، جِنسی مساوات اور نسوانی حقوق کا فریب دے کر اِس کو برہنہ کرکے مرد حضرات کی جنسی تسکین اور عیاشی کیلئے محض ایک کھلونہ سمجھا جاتا ہیں۔ دورِ حاضر میں اگر دیکھا جائے تو ماچس کی ایک چھوٹی سی تِلی سے لیکر گھر میں استعمال کی جانے والی ہر ایک چیز کی خریداری کیلئے عورت کی نیم برہنہ تصاویر کا استعمال اشتہار بازی کے نام پر کیا جاتا ہیں تو کیا یہ عورت کی عزت کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے؟ المیہ تو یہ ہے پھر ایسے مخصوص دنوں پر اِنہی اعلٰی کمپنیوں کے اعلٰی عہدیداروں کو منعقد کردہ تقاریب پر مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی جاتی ہیں اور وہ لوگ بھی بِلا جھجھک نسوانی عِزت و عصمت کی حفاظت کے بارے میں اپنی لمبی تقاریر سے سامعین کو خوش کردیتے ہیں۔ دورِ حاضر میں بالی ووڈ کی فلموں اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں بولڈ سین، جمالیات، فٓن، اداکاری، تخلیقی صلاحیتوں کے نام پر صرف عورت کا ننگا جسم دکھایا جاتا ہے اور فحاشی کا کاروبار چلایا جاتا ہے اور پھر اپنی زندگی کے ایامِ آخر میں یہی لوگ یا تو ماٹیوشنل اسپیکر بن کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہن اپنے گندے خیالات سے آلودہ کرتے ہیں یا پھر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عوام کو جِنسی مساوات اور نسوانی حقوق کا درس دیتے ہیں اور اِن معاملات کیلئے قوانین مقرر کرتے ہیں۔ کیا یہ صنفِ نازک کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق نہیں ہے؟
مِس انڈیا، مِس ورلڈ، مِس یونیورس جیسے خطابات کیلئے عورت کے اخلاق و اخلاص، حیا و کردار وغیرہ کے بجائے اِس کے جسم کے ہر ایک حِصے کی پیمائش کی جاتی ہے اور پھر اِنہی بنیادوں پر عورت کو مختلف القاب سے نوازا جاتا ہے اور اِنہی چیزوں کو عورت کی ہمت و اسقلال، آزاد خیالی اور بہادری کے نام دئے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب پیش قدمیاں اور اقدامات واقعی عورت کی عزت اور اُسکی ترقی کیلئے اُٹھائے جارہے ہیں یا دور جدید میں ان جھوٹی اصطلاحات کے نام پر عورت کو محض دل بہلائی کا کھلونا بنایا جارہا ہے جس کو بعد میں استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ صنفِ نازک کو ان چیزوں پر غور کرکے اس بات پر ادراک کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں عالمی یومِ خواتین منانے والے اقوام نے ہی انہیں کسی دلفریب دھوکے میں تو نہیں رکھا ہے اور انہیں آزادی، برابری وغیرہ جیسے طلسماتی محلوں کے خواب دکھا کر انھیں برباد تو نہیں کیا جارہا ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں کے فائیو سٹار ہوٹلوں اور اعلٰی پرائیوٹ یا سرکاری ادارات میں استقبالیہ یعنی ریسپشنشٹ کے نام پر عورت کو ہی نیم برہنہ حالت میں ٹھیک دروازے کے سامنے کھڑا کرکے لوگوں کے استقبال اور دل بہلائی کیلئے رکھا جاتا ہے۔ کیا اس کو ہم عورت کی ترقی کا نام دیں گے یا اُس کی تذلیل کے جدید تراکیب؟ ذِی حس اور باضمیر لوگوں کی طرف سے دنیا کے مہذب، باشعور اور جدید اقوام کے سامنے یہ کچھ اہم سوالات اُٹھائے جارہے ہیں جن کا جواب دینا اُن کا اخلاقی اور انسانی فرض ہے۔
جب تک دنیا کے مہذب اور باشعور اقوام اِن بنیادی مسائل پر غور کرکے عورت کو اُس کا حقیقی مقام عطا نہیں کریں گے تب تک یومِ خواتین منانا محض ایک جھوٹ، دِکھاوا اور فریب ہے۔ عورت کی اصل اور حقیقی عزت اُس کو کھلونہ سمجھ کر استعمال کرکے پھینک دینے میں نہیں ہے بلکہ اُس کو پردہ میں رہنے پر اس کی حوصلہ افزائی کرنے میں اور اس کو بازار کے بجائے گھر کی زینت بنانے میں ہے۔ اُس کی آزادی اُس کو فیشن کی زینت بناکر اس کے برہنہ جسم کی نمائش کرنے میں نہیں بلکہ اس کو گھر کی ملکہ بنانے میں ہے۔ اشتہار بازی میں چیزوں کی خریداری کیلئے اس کے برہنہ جسم کو استعمال کرنے سے وہ معاشرے میں کبھی بھی عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتی ہے بلکہ اِس کو صرف جنسی تسکین کا کھلونہ سمجھا جائے گا۔ اگر ایک طرف ہمارا معاشرہ ہر سال جوش و خروش سے عالمی یومِ خواتین مناتا ہے تو دوسری طرف اُسی معاشرے کی بوڑھی مائیں اپنی عمرِ اخیر میں در در کی ٹھوکریں کھاتی ہیں اور اُسی معاشرے کی بہنیں اور بیٹیاں جنسی زیادتی اور گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہیں اور آئے روز ان واقعات کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ عورت ماں کی شکل میں ممتا، بہن کی شکل میں ہمدرد اور ہمراز ، بیوی کی شکل میں شریکِ حیات و ہم سفر اور بیٹی کی شکل میں گھر کا چراغ اور اپنے والدین کی آنکھوں کا نور ہوتی ہے جس کے بغیر ایک مرد ہمیشہ نامکمل اور ادُھورا ہے۔ ایک مرد کی ترقی تب تک ناممکن ہے جب تک مشکل گھڑیوں میں اس کا ساتھ ایک عورت نہ دے۔ لہذا ایک ترقی پسند اور خوشحال معاشرے کیلئے عورت کی عزت کرنا اور اُن کو بنیادی نسوانی حقوق سے آراستہ کرنا لازمی اور لامُحالہ ہے۔ مذید اس امر کی بھی بےحد ضرورت ہے کہ عورت اپنے آپ کو جدیدیت کے نام پر فحاشیت کے بازار میں دھکیلنے کے بجائے اپنے مقام کو پہچان کر اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے اور خود کو مادیت کی لالچ میں مرد کا کھلونا بنانے کے بجائے معاشرے میں اپنی ایک الگ اور خاص پہچان بنانے کی کوشش کرے۔ صنف نازک کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اس بات سے باخبر رہے کہ دور حاضر میں مختلف معاشروں میں کچھ غلیظ دماغ جدیدیت، فیشن پرستی اور آزاد خیالی کے فریب میں اُن کو جھوٹے خواب دِکھا کر صرف اُن کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اِن باتوں پر عمل کرکے اگر ہم عورت کو حقیقی عزّت اور معاشرے میں اس کا استحقاقی مقام فراہم کرے گے تو شاید پھر ہر دن ہمارے لئے یومِ خواتین ہوگا۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comments