وجودِ الٰہی اور دین کا تصوُّر - ایک جائزہ
(حصہ دوم)
(عابد حسین راتھر)
پچھلے ہفتے زیرِ عنوان مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے وجودِ الٰہی اور دین کے بارے میں مُلحدانہ نظریات کا تواریخی پس منظر پیش کرکے اس کے بنیادی اسباب کو جاننے کی کوشش کی تھی۔ مضمون کے اِس حصے میں اب ہم کچھ اہم مُلحدانہ نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں پر قبضہ کرکے اُنھیں اُلجھا رکھا ہیں۔ مُلحدانہ نظریات رکھنے والوں کا سب سے پہلا اور اہم اعتراض یہ ہے کہ اِس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ کائنات آج سے تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے بِگ بینگ دھماکے کی شکل میں خود بخود وجود میں آئی۔ لیکن سائنس کی دنیا میں یہ مضحکہ خیز اعتراض بلکل نامعقول اور بے معنٰی ہے۔ ایسے لوگ اس بات پر کامِل یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے لیکن جب کائنات کے وجود کا سوال اُٹھتا ہے تو ایسے نظریات رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ کائنات کا وجود اتفاقاً خود بخود ہوا ہے۔ یونانی فلسفی پرمینائڈس (Parmenides) کا ایک مشہور قول ہے، (Out of nothing, nothing comes) یعنی 'کچھ نہیں' میں سے کچھ بھی نہیں نکل سکتا ہے۔ لہذا اگر کائنات کے وجود سے پہلے کسی بھی چیز کا وجود نہیں تھا تو مادے کی شکل میں کائنات کا وجود ناممکن تھا۔ اسی طرح توانائی کا بھی خودبخود وجود میں آنا ناممکن تھا۔ ایسے لوگوں کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر کائنات کا کوئی خالق ہے تو پھر اس خالق یعنی خدا کا خالق کون ہے؟ لیکن ایسے لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ خالق کا سوال ذہن میں تب آتا ہے جب ہمارے سامنے کسی مخلوق کا مکمل تصور ہو۔ مثلاً اگر ہم کسی مکان کو دیکھتے ہیں تو اُس کے بنانے والے کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ چونکہ ہماری سوچنے کی طاقت خدا کی مکمل ذات کا تصور کرنے کیلئے نابلد اور نااہل ہے، لہذا خالق کے خالق کا سوال قطعی طور پر لایعنی بن جاتا ہے۔
ملحدانہ نظریات رکھنے والے افراد چونکہ سائنس کے اصولوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر مادی چیزوں سے واسطہ رکھتے ہیں لہذا ایسے اشخاص کا خدا کے بارے میں تیسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ ہم ایسی ذات پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں۔ لیکن ایسے اعتراضات کرتے وقت وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کائنات میں بہت ساری ایسی چیزوں کا وجود ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے بلکہ صرف محسوس کر سکتے ہیں جیسے کہ احساس، درد، خوشی، روح وغیرہ۔ علاوہ ازیں انسان کی طاقتِ بصارت محدود ہے وہ کائنات کی تمام اشیاء کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ اگر ہماری آنکھیں سورج کی روشنی کے طیف کے سفید جُز کے بغیر اس کے باقی اجزاء کو نہیں دیکھ سکتی ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں باقی رنگوں کے اجزاء موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی کُھلی جگہ میں کسی خاص سِمت کی جانب دیکھیں گے تو کچھ فاصلے کے بعد ہماری آنکھیں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی ہیں مگر اس سے ہم یہ مطلب نہیں نکال سکتے ہیں کہ اس فاصلے کے بعد کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انسان کی محدود طاقتِ بصارت ایک لامحدود ذات یعنی خدا کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتی ہے۔ خدا کی لامحدود اور لامتناہی ذات کے وجود کا خوبصورت تصور حضرت علی ؓ نے بہترین انداز میں پیش کیا ہے جو نہجُ البلاغہ کے خطبہ نمبر 184 میں درج ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہے،
' جس نے اس سے مختلف کیفیات سے متصف کیا اس نے اس سے یکتا نہیں سمجھا۔ جس نے اس کا مثل ٹھہرایا، اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا۔۔۔ اس کی ہستی زمانہ سے پیشتر، اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمیشگی نقطۂ آغاز سے بھی پہلے سے ہے۔۔۔ وہ کسی حد میں محدود نہیں اور نہ گننے سے شمار میں آتا ہے۔۔۔ حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہوسکتے۔ بھلا جو چیز اس نے مخلوق پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیوں کر طاری ہوسکتی ہے اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پزیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علٰیحدہ ہوجائے گی۔۔۔ تصورات اس سے پا نہیں سکتے کہ اس کا اندازہ ٹھہرا لیں اور عقلیں اس کا تصور نہیں کرسکتی کہ اس کی کوئی صورت مقرر کرلیں۔ حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے کہ اس سے محسوس کرلیں۔۔۔ '
مُلحدانہ سوچ میں الجھے ہوئے لوگوں کا چوتھا آخری اور اہم اعتراض یہ ہے کہ جیسے کائنات خود بخود ظہور پزیر ہوئی ہے ویسے ہی ایک دن یہ خود بخود ختم ہوجائے گی لہذا موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یونان کے مشہور فلسفی سقراط کا ایک مشہور قول ہے کہ 'اگر موت ہر چیز کا مکمل اختتام ہوتا تو پھر بدکار لوگوں کی موت سے اچھی سودے بازی ہوتی کیونکہ انہیں موت کے بعد اپنے بُرے اعمال کیلئے جوابدہ نہیں ہونا پڑتا مگر موت صرف جسم کو آتی ہے اور روح لافانی ہے۔' اگر موت ہمارا کُلی طور پر خاتمہ ہوتا تو پھر دنیاوی زندگی بے معنٰی ہوکر رہ جائے گی کیونکہ ہر فرد اِخلاقی اقدار کا لحاظ کئے بغیر اور اچھے بُرے میں تمیز کئے بغیر اپنی مرضی کا مالک بن کر اپنی زندگی گزارے گا۔ اس طرح سے انسان اپنا خصوصی مقام اور اپنی شناخت کھو کر کرّہ ارض کے باقی حیوانات کی طرح ایک حیوان بن کر ان میں گھل مل جائے گا۔ اس کے برعکس موت کے بعد کی زندگی کا نظریہ ہمیں اُخروی دنیا میں اپنے اعمال کا جوابدہ بناکر ہماری دنیاوی زندگی کو بامعنٰی اور بامقصد بناتی ہے۔ جسمانی موت دراصل ہماری روح کی ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقلی ہے۔ اگر سائنس ابھی تک موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں تحقیق کرکے کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موت کے بعد کی زندگی ناممکن ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ابھی ترقی کے اس مقام پر نہیں پہنچ سکی ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم کر سکے لیکن ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ایسا ممکن ہو۔ جس طرح آج سے صدیوں پہلے کے ناممکنات سائنس نے ممکنات میں تبدیل کرکے خدا کی عظمت اور آیات کو ہمارے سامنے واضع کرکے رکھ دیا ہے، اِسی طرح شائد مستقبل میں سائنس موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں واضع ثبوت فراہم کر سکے۔ مضمون کے آخر میں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ وجود الٰہی اور دین کے تصور کے بارے میں مُلحدانہ نظریات سے بچنے کیلئے ہمیں چاہئے کہ ہم سائنسی اور دنیاوی علوم کے ساتھ دینی علوم کا متوازن اسلوب میں مطالعہ کرکے تحقیق کرے اور وجود الٰہی کے بارے میں تمام شک و شبہات کا ازالہ کرے۔
(ختم شد)
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comment:
Post a Comment