(عابد حسین راتھر)
ایک معاشرہ کسی مخصوص علاقہ میں رہنے والے مختلف سُوچ اور مختلف نظرِیہ رکھنے والے افراد کے مجموعہ سے بنتا ہے اور اُس معاشرے میں پائی جانے والی ہر ایک اچھائی یا برائی کا ذمہ دار وہاں کا ہر ایک فرد ہوتا ہے۔ اُس معاشرے کی ترقی کا دارومدار بھی وہاں کے ہر ایک فِرد پر مُنحصر ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب بھی کبھی کسی معاشرے میں کوئی سماجی بُرائی نمودار ہوتی ہے یا معاشرے میں منظر عام پر آتی ہے تو اُس برائی میں ملوث افراد چند لمحوں میں یا چند دنوں میں اُس برائی کا ارتکاب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں بلکہ اصل میں یہ عمل لمبے عرصے سے پس پردہ میں رہتا ہے اور سماج کے مختلف عناصر جیسے اخلاقیات کی کمی، مادیت کی دوڈ، فحاشی، دین سے دوری وغیرہ اُن لوگوں کے ضمیروں کو مار کر اًنکو حیوانیت کے صفوں میں کھڑا کرکے اُنکے دماغوں کو اِن غیر اخلاقی کاموں کیلئے تیار کرتے ہیں جن کے ارتکاب میں شاید ابلیس بھی شرم محسوس کریگا ۔ لہذا معاشرے میں کسی بھی برائی کو روکنے کیلئے صرف چند افراد کی اصلاح کافی نہیں ہوتی ہے بلکہ تمام معاشرتی نظام پر نظرثانی کرکے از سر نو اُسکی تعمیر و تشکیل ضروری ہوتی ہے۔
ہماری جنت نما وادی کو عارفوں، عابدوں اور اولیائے کرام کی سر زمین کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں بہت سارے بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں۔ پہلے پہل یہاں عام لوگوں کی زندگی پر اِن اولیائے کرام کا گہرا اثر تھا۔ جسکی وجہ سے یہاں کے اکثر لوگ دیندار اور سادہ لوح تھے۔ نا ہی یہاں کے لوگوں پر مادیت پرستی کا بھوت سوار تھا اور نا ہی فیشن پرستی کا جنون۔ نتیجتاً ملک کے باقی علاقوں کے مقابلے میں یہاں کے لوگ بہت کم سماجی برائیوں میں ملوث تھے۔ جب ہم آج سے بیس یا پچیس سال پہلے کے اعداد وشمار پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری وادی میں سماجی جرائم کا گراف بہت نیچے نظر آتا ہے۔ لیکن دور حاضر کے طوفانِ عالمگیریت اور وبائے مغربیت سے ہماری وادی بھی نہ بچ سکی اور لوگ مذہبی و روایتی اخلاق واقدار کو بھول کر مادیت پرست اور آذاد خیال بن گئے۔ فیشن پرستی، بے حیائی، نیم عریانی، بد اخلاقی اور باقی بدکاریوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں سماجی جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور آجکل ہم آئے روز وادی کے کسی نہ کسی علاقے میں کسی سماجی جُرم کے ارتکاب کی خبر سُنتے ہیں اور اب ہم میں سے اکثر لوگ ان خبروں کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔ ابھی اننت ناگ کے دل دوز حادثے کو ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ گذشتہ دنوں سرینگر میں ایک شرمناک واقعے میں کسی حیوان صفت نوجوان نے ایک دوشیزہ کے چہرے پر تیزاب پھینک کر نہ صرف اسکو ہمیشہ کیلئے بینائی سے محروم کیا بلکہ اس کے حسین خوابوں کو چکنا چُور کر کے اسکے وجود کو ہمیشہ کیلئے ایک سخت عذاب میں رکھا۔ دوسرے جرائم کی طرح اس شرمناک جرم کا ارتکاب آج یہاں پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ شیطان صفت انسانوں نے پہلے بھی کئی بار بہت ساری نوجوان لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینک کر اُن کے نسوانی حُسن کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ اًن کو بینائی سے بھی محروم کیا۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہماری وادی میں بھی ملک کے باقی ریاستوں کی طرح ایسے گھناؤنے جرائم کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ اِس وجہ کو جاننے کیلئے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ جہاں بے حیائی اور بے شرمی کو جدیدیت اور آزاد خیالی کا نام دیکر پروان چڑھایا جارہا ہو، جہاں اسلامی نظریات کو قدیم اور دقیانوسی خیالات سمجھ کر اُن سے دامن چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہو وہاں پر صنفِ نازک کے چہرے پر تیزاب پھینکنا یا ایسے ہی دوسرے گھناؤنے جرائم کا پیش آنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے غلیظ اور گندے دماغ ایک رات میں تیار نہیں ہوتے ہیں نا ہی کوئی انسان ایک پل میں انسانیت کے معیار سے اتنا نیچے گِر سکتا ہے کہ ایسے جُرم کا ارتکاب کرے بلکہ یہ اُس انسان کی برسوں کی پرورش اور سماج پر بد اخلاقی، فحاشی، مغربیت کا غلبہ اور دین سے دوری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ کا فرمان ہے ' حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بےحیائی و بدکلامی سنگدلی ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے'۔ بےحیائی سے دل سخت ہوجاتا ہے لہذا بےحیا انسان ایسے شرمناک اور گندے افعال کے ارتکاب میں کبھی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ ایسے جرائم سماجی ناکامی کی عکاسی کرتے ہے اور ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ہم ایک اچھے، بااخلاق، پروقار اور مذہبی معاشرے کو تشکیل دینے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک ذِی حس اور ذی شعور فرد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی اپیل کی ہے لیکن اس سماجی مرض کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے یہیں کافی نہیں ہے۔ اس مرض کو ختم کرنے کیلئے صرف مجرموں کو سزا دینا ایک پیڑ کو ختم کرنے کیلئے صرف اُسکی شاخوں کو کاٹنے کے مترادف ہے۔ ایک پیڑ کی شاخوں کو کاٹ کر ہم اسکو کمزور تو کر سکتے ہیں لیکن اسکے وجود کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ اسکو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے ہمیں اُسکے جڑوں تک پہنچ کر اُنکو اُکھاڑ کر پھینکا ضروری ہے۔ اسی طرح اس بدنما سماجی داغ اور باقی سماجی برائیوں کو کُلی طور پر ختم کرنے کیلئے اُن کے جڑوں تک پہنچا ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے معاشرے میں پھیلی بےحیائی اور بےراہ روی کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ یہیں چیزیں بہت ساری سماجی برائیوں کے بنیادی اسباب ہیں۔ سماج کے ہر ایک فرد اور ہر طبقہ کو اپنے فرائض سے آگاہ ہوکر اُنکو خوش اسلوبی سے نبھانا ضروری ہے اور معاشرے میں سماجی اور دینی اخلاق و اقدار کو پھر سے اُجاگر کرنے کی اہم ضرورت ہے۔ بچوں کو سماجی برائیوں سے دور رکھنے کیلئے سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر بچے کی پرورش اچھی طرح سے نہیں کی جائیگی اور اُسکی روزمرہ زندگی پر کڑی نظر نہیں رکھی جائیگی تو مستقبل میں وہی بچہ بہت ساری سماجی برائیوں میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری وادی میں اکثر والدین اپنے بچوں کو ہر قسم کی سہولیات تو فراہم کرتے ہیں مگر مادیت کی دوڈ میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی اصلاح کیلئے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے عادات و اطوار پر نظر رکھے اور انکو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرے۔ معاشرتی برائیوں کو روکنے اور نوجوانوں کو بااخلاق اور باکردار بنانے میں ہمارے دینی رہنماؤں اور واعظین کا بھی ایک اہم رول ہے۔ ہمارے واعظین حضرات کو چاہئے کہ سوشل میڈیا پر اور مساجد میں مسلکی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تنقید کرنے کے بجائے لوگوں کو اخلاقیات اور دینیات سے روشناس کروائے اور انکو سماجی برائیوں کے نتائج سے آگاہ کریں۔ اگرچہ ہمارے مدارس کے نصابوں میں پہلے ہی اخلاقی تعلیم کا دائرہ تنگ کیا گیا ہے لیکن ہمارے استاتذہ کرام کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے کلاس روم میں چند منٹ نکال کر طلباء کو اخلاقیات کا درس دیا کرے اور سماجی برائیوں سے دور رہنے کی تلقین کرے۔ مضمون کے اختتام پر میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماجی برائیوں کو روکنے کیلئے سخت سے سخت قوانین لاگو کرے اور ان برائیوں میں ملوث افراد کو کسی بھی صورت میں نہ بخشے۔ میرے خیال میں یہ چند اقتدامات اٹھاکر ہم اپنے معاشرے میں بہت ساری سماجی برائیوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
(مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔)
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comment:
Post a Comment