-->

English Soccer News gives you the latest news about soccer match in Europe and UK. Enjoy!

چائے اور مٹھائی کے نام پر رشوت کی ناجائز رسم

چائے اور مٹھائی کے نام پر رشوت کی ناجائز رسم

( عابد حسین راتھر ) 
گزشتہ دنوں لل دید ہسپتال سرینگر میں پیش آئے افسوسناک واقعہ کی خبر تقریباً آپ سب نے سُنی ہوگی۔ جی ہاں, دو سو روپئے کے عوض ایک نو زائد بچے کا قتل۔ یہ واقعہ انسانیت اور کشمیریت کے چہرے پر اپنے آپ میں ایک بدنما داغ ہے۔ یہ واقعہ اپنی پہلی نوعیت کا نہیں تھا۔ دو سال پہلے ایسا ہی ایک دلدوز واقعہ اسی ہسپتال کے سامنے رونما ہوا تھا جب ہسپتال کے انتظامیہ نے ضلع کپوارہ کے دور دراز علاقہ کی ایک حاملہ عورت کو ہسپتال میں درج کرنے سے منع کیا تھا جس کی وجہ سے اس عورت کے بچے کا جنم وہی پاس سڑک کے کنارے ہوا تھا۔ ہماری جنت نما وادی میں پہلے بھی بہت بار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں اور یقین کیجیئے آئیندہ بھی ہونگے۔ جناب چونکئے مت، میں کوئی نجومی نہیں ہوں نا ہی ستارے دیکھ کے مستقبل بتانے کا قائل ہو مگر ماضی کے تلخ تجربے اور اپنی وادی کے مسلم معاشرے پر مادیت پرستی, لالچ, حرض, خودغرضی, بے ایمانی, جھوٹ, رشوت خوری اور دغابازی کا بھوت سوار دیکھ کر یہ لکھنے پر مجبور ہو کہ ہمیں خود کو آئے روز ان خبروں کو سننے کا عادی بنانا ہوگا۔ جب کسی معاشرے میں لوگوں کے ذہن پر مادیت کا بھوت سوار ہوجاتا ہے تو ان کے اندر احساسات ختم ہوجاتے ہے۔ وہاں قدرتی طور پر انسانی جانوں کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے پھر وہاں ایسے شرمناک واقعات کا پیش آنا ایک عام سی بات بن جاتی ہے۔ آئے روز ایسے سانحات کا پیش آنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں جہاں انسان انسانیت کے معیار سے گر کر حیوانوں کی صف میں شامل ہوا ہے۔ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے میں ذرا سا عار بھی محسوس نہیں کرتے ہیں اور نا ہی اب ہمارے سماج میں یہ کوئی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ دو منٹ سونچ کر بتائیے کیا ہمارا معاشرہ کسی ایک بھی سماجی برائی سے خالی ہے, بالکل نہیں بلکہ ہم نے تو اس دوڈ میں پچھلی تمام اقوام کو پيچھے چھوڑا دیا ہے اور موجودہ صورتحال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم آگے بھی کبھی ابلیس کو مایوس نہیں کرینگے۔ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہے تو ہر طرف رشوت خوری اور بد عنوانی کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ کون سا شعبہ ایسا ہے جو رشوت کی دلدل میں پھنسا نہیں ہے۔ کون سا محکمہ ایسا ہے جہاں غربأ اور مساکین کے حقوق کی پامالی نہیں ہوتی۔ رشوت خوری اور بد عنوانی کے معاملے میں یہاں کے تمام محکمہ جات کی مثال ایک حمام میں سب ننگے جیسی ہے۔
کشمیر میں بہت ساری سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے حکومت اور عوام کو لل دید ہسپتال میں پیش آئے سانحہ پر غور کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ کیا وہاں پہلی بار کسی نے چائے اور مٹھائی کے نام پر رشوت مانگی تھی یا یہ سلسہ وہاں برسون سے چلا آرہا ہے۔ یہاں پر یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑےگی کہ صرف لل دید ہسپتال میں ہی نہیں بلکہ وادی کے بیشتر اسپتالوں میں مٹھائی اور چائے کے نام پر رشوت لینا ایک رسم بن گئی ہے۔ اگر ہم ایک قدم اور آگے بڑے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ رسم صرف اسپتالوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وادی کے بیشتر محکمہ جات اِس ناجائز اور غیر قانونی رسم میں مبتلا ہے۔ ہر ایک سرکاری دفتر میں عوام کا کام ملازمت کا فرض سمجھ کر نہیں بلکہ چائے اور مٹھائی کے عوض کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ غیر قانونی رسم برسوں سے ہر محکمہ کی چار دیواری کے اندر ہی پنہاں ہے کیونکہ اس رسم کے خلاف کوئی شکایت کرنے والا نہیں ہوتا ہے اور اگر کبھی کسی نے ہمت کر کے اس جرم کے خلاف آواز اُٹھانے کی كوشش بھی کی تو اُس آواز کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا ہے۔ لہذا یہ ناجائز رسم تب ہی عوامی منظر میں آتی ہے جب اس سے کوئی ایسا سانحہ پیش آتا ہے جسکی برپائی پھر ناممکن ہوتی ہے جیسا کہ پچھلے دنوں لل دید ہسپتال میں ہوا۔ دوسری بات جو یہاں پر غور کرنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس جرم کے ارتکاب میں صرف محکمہ کے چھوٹے ملازمین ہی شامل ہوتے ہیں یا اعلیٰ افسران بھی اس رسم میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہر محکمہ کے اعلیٰ افسران اس رسم سے بخوبی واقف ہوتے ہیں بلکہ بہت سارے محکمہ جات میں اعلیٰ افسران کو اس چائے اور مٹھائی کا اپنا الگ حصہ ملتا ہے کیونکہ بصورت دیگر کسی بھی محکمہ کا ایک چھوٹے درجے کا ملازم ایسے جرم کا ارتکاب کرنے کی کبھی ہمت نہیں کرے گا۔ لہذا یہاں پر ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سزا کے طور پر اس جرم میں ملوث صرف ایک ادنیٰ چھوٹے درجے کے ملازم کو ملازمت سے برخاست کرنا اس وبا کا حل ہے یا محکمہ کے اعلیٰ افسران کو بھی اس جرم کی پاداش میں سزا کا حقدار سمجھنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں اس غیر قانونی رسم کے نتیجے میں جو بھی سانحات پیش آتے ہے محکمہ کے اعلیٰ افسران اُن میں برابر زمہ دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی محکمہ کی باگ دوڑ اس کے اعلیٰ افسران کے ہاتھوں میں ہوتی ہے لہذا جب تک اُس محکمہ کے کسی جرم میں کسی اعلیٰ افسر کی نظراندازی یا شمولیت نہ ہو وہاں اسکا ارتکاب ناممکن ہے۔ اسلئے صرف چھوٹے درجے کے ملازمین کو اِس جرم کی پاداش میں نوکری سے برخاست کرنا نا ہی عقلمندی ہے اور نا ہی اس وبا کا حل ہے بلکہ معاشرے میں اس وبا کے خاتمے کے لئے مختلف محکمہ جات کے اعلیٰ افسران سے بھی باز پرش کر کے قصوروار لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دینا ضروری ہے۔ 
برسون سے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ حکومت مختلف شعبہ جات میں 'چائے اور مٹھائی' کے آڑ میں لیے جانے والے رشوت کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات اُٹھا رہی ہے لیکن یہ سارے دعوے ابھی تک كھوکھلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت میں یہ ایک سماجی ناسور, ہمارے معاشرے پر ایک بد نما داغ اور ہمارے انسانیت کے تقاضے پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے جس کا خمیازہ اکثر غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جب تک اس جرم میں ملوث ایک اعلیٰ آفیسر سے ليكر ایک ادنیٰ ملازم تک ہر ایک کو کڑی سے کڑی سزا نہیں دی جائےگی تب تک اس ناسور کا خاتمہ ناممکن ہے۔ آخر میں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ ایک معاشرہ مختلف افراد کے مجموعے سے بنتا ہے لہذا جب تک اس مجموعے کے ہر فرد کے اندر احساسِ انسانیت پیدا نہ ہوجائے اور ہر فرد ایسی معاشرتی برائیوں کو گناه سمجھ کر ان سے دور نہ رہے تب تک ایک معاشرہ ان برائیوں سے کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ 

مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔  
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com 
موبائیل نمبر : 7006569430

0 Comment: