(عابد حسین راتھر)
انسانی زندگی کا سفر کبھی بھی ہموار نہیں چلتا ہےاور نا ہی انسانی زندگی کے حالات یکساں رہتے ہیں۔ وقت کی ایک اچھی خاصیت یہ ہے کہ چاہے اچھا ہو یا برا وقت بدلتا رہتا ہے لیکن زندگی کا یہ اچھا یا برا وقت کبھی بتا کر نہیں آتا۔ خاصکر انسان کو زندگی کے برے اور مشکل وقت کا سامنا تب کرنا پڑتا ہے جب انسان کو نا اسکی توقع ہوتی ہے اور نا ہی وہ اس کے لیے تیار ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی میں بہت سارے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کسی کےکاندھوں پر قرضے کا بھوج ہوتا ہے تو کسی کو سرکاری ملازمت نہ ملنےکا غم کھائے جا رہا ہے ۔ کسی کی طلاق شدہ زندگی اسکو ہر پل تنہائی کا احساس دلا کر اسکو خود کشی کے مقام پر لا کر کھڑا کردیتی ہے تو کسی کو کسی اپنے کی موت اس پر غم اور مصائب کا پہاڑ گرا دیتی ہے۔ الغرض ہر ایک انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مقام پر مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اس کی تمام امیدیں ختم ہوجاتی ہے اور وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے لیے زندگی گزارنا ایک بہت ہی مشکل اور کٹھن کام بن جاتا ہے۔ ایسے حالات اور ان مشکل گھڑیوں میں انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور زندگی کے بہت سارے کارآمد تجربات حاصل ہوتے ہیں بشرطیہ کہ اگر انسان عقلمندی سے ان حالات کا سامنا کرے اور زندگی کے تئیں مثبت روئیہ اختیار کرے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے لہذا انسان کو مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اپنے اندر مثبتیت کو زندہ ركھنا چاہیے۔ یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ہر کوئی انسان آسان اور پرسکون زندگی کا طلبگار ہے اور ہر کوئی اپنی زندگی میں بنا جدوجہد کے ہی کامیابی کا خواہاں ہے جس کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور زندگی میں جدوجہد اور مشکل گھڑیاں ہی ہمیں کامیابی کے بھیدوں سے آشنا کراتی ہیں۔ زندگی کی یہ مشکل گھڑیاں بہت ہی سبق آموز ہوتی ہیں۔ زندگی کے یہ مشکل مراحل تو کبھی نہ کبھی گزر ہی جاتے ہیں لیکن ان مراحل کے دوران انسان کو چاہیے کہ وہ ان برے حالات سے نپٹنے کے تراکیب ڈھونڈے اور ان حالات سے سبق حاصل کرے کیونکہ زندگی کا برا وقت ہی زندگی کا بہترین استاد ہوتا ہے۔
اب یہاں پر انسان کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم كيسے مشکل حالات سے نپٹ سکتے ہیں اور زندگی کی کٹھن گھڑیوں سے كيسے سبق حاصل کر سکتے ہہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی کی مشکل گھڑیوں کو اپنی زندگی میں قبول کرنے کا ہنر سیکھے۔ جب ایک انسان کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے تو وہ بہت مایوس ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی خود اپنی ذات کو اس کے لیے قصوروار ٹھہراتا ہے۔ لیکن لمبی مدت تک ذہن ميں ایسی سوچ ركھنے سے حالات اور زیادہ بگڑ جاتے ہے اور اسکی دماغی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ لہذا پچھتاوا کرنے سے بہتر ہے کہ انسان مشکل حالات کو قبول کر کے ان کو سلجھانے کی تراکيب پر غور کرے۔ مماضی پر پچھتاوا کبھی ماضی کو بدل نہیں سکتا لیکن موجودہ حالات کی قبولیت ذہنی تناؤ کو بہت حد تک کم کر سکتی ہے اور ہمارے اندر ایک مثبت توانائی پیدا ہوتی ہے جس سے ہم مشکل حالات سے آسانی سے لڑ سکتے ہیں ۔ زندگی کی مشکل گھڑیوں کے مراحل ميں دوسری ضروری بات انسان کا خود اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے۔ جذبات سے کام لینے کے بجائے انسان کو چاہیے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرکے مشکلات کی بنیادی وجہ ڈھونڈنےکی کوشش کرے کیونکہ ہم کوئی بھی مسلہ تب تک حل نہیں کر سکتے ہیں جب تک ہمیں اُسکی بنیادی وجہ معلوم نہ ہو۔ اس کے بعد انسان کو چاہیے کہ وجہ جان کر مسلہ حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ مشکل وقت ختم ہوجائے اور ساتھ ہی انسان کو چاہیے کہ مستقبل میں کوئی ایسی غلطی نہ کرے جس سے اس پر پھر سے دوبارہ کوئی مصیبت آجائے۔ لہذا مصیبت میں رونے دونے کے بجائے انسان کو مصیبت کی وجہ جاننی چاہیۓ اور اسکے بعد بہتر اور اسلوب طریقے سے اس سے نپٹنے کی کوشش کرنی چاہیۓ اور ساتھ ہی ساتھ اس سے نصیحت حاصل کرنی چاہیۓ۔
تيسری بات جو میں یہاں پر عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ مشکل حالات میں انسان کو یہ بات ذہن میں رکھنی لازمی ہے کہ دنیا کی ہر ایک چيز عارضی ہے۔ تبدیلی ایک فطری عمل ہے اور زندگی کا ایک اہم حصہ ہے لہذا زندگی کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور مشکل گھڑیاں بھی آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہے لیکن اس عمل میں وقت لگتا ہے۔ وقت بدلنے تک انسان کو چاہیۓ کہ وہ شوروغل مچانے کے بجائے پرسکون رہے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے اپنے بڑوں اور دانشور لوگوں سے مشورہ لے۔ کسی بھی مسلے کے بارے میں اپنوں سے مشورہ لینے میں کبھی بھی ہچکچانا یا شرمانا نہیں چاہیۓ۔ ہمیشہ یاد رہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور غم بانٹنے سے کم ہوجاتے ہیں۔ مشکل وقت سے نپٹنے کے لیے چوتھی ضروری بات یہ ہے کہ انسان اپنے اندر مشکلات میں بھی خوش رہنے کا ہنر پیدا کرے۔ خوشی ایک ایسی چيز ہے جو ہم بازار سے نہیں خرید سکتے ہے بلکہ اپنے اندر اپنے وجود میں تلاش کر سکتے ہے۔ انسان کو ہمیشہ ان وقوعات کا متلاشی ہونا چاہیے جو اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لائے۔ خوش رہنے سے انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے جس سے اس کے اندر مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ مشکل گھڑیوں میں انسان خود کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو کسی پسندیدہ مشغلے میں بھی مصروف رکھ سکتا ہے۔اگرچہ یہ سچ ہے کہ تفریحی کاموں میں مصروف رہنے سے مشکلات کا ازالہ تو نہیں ہوگا لیکن ذہنی تناؤ سے راحت ضرور ملےگی اور شاید یہی دماغی راحت بعد میں مشکلات کے خاتمے میں سودمند ثابت ہوگی۔ زندگی کے مشکل لمحات سے لڑنے کیلئے پانچویں اور آخری بات جو میں یہاں پر عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں جینا چاہیۓ۔ دوسروں کی مدد پر منحصر رہنے کے بجائے انسان کو ہمیشہ اپنی مدد آپ کرنی چاہیۓ۔ انسان کو اس خواب خرگوش سے بیدار ہونا چاہیۓ کہ کوئی مسیحا آکر اسکو کسی مصیبت یا پریشانی سے نجات دلائےگا بلکہ انسان کو ہمیشہ چاہیۓ کہ وہ خود مسائل کا حل ڈھونڈے۔ ہم میں سے اکثر لوگ مستقبل کے بارے میں اتنا پریشان رہتے ہے کہ وہ اپنے حال کو بھول جاتے ہیں۔ مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے مگر اس کے لیے حد سے زیادہ پریشان رہنے سے انسان کی موجودہ زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ مسقبل کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے حال کے مسائل پر توجہ دے اور انکا حل ڈھونڈنے کی كوشش کرے۔ انسان کا مستقبل تب ہی خوشگوار اور پرسکون ہوسکتا ہے جب وہ زندگی کی مشکل گھڑیوں کو سبق آموز بناکر ان سے تجربہ حاصل کرے اور پھر وہی تجربہ آنے والے مسائل میں استعمال کرکے انکا خاتمہ کرے۔
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے,
سب کو اک حادثہ ضروری ہے ۔
(اتباف ابرک)
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comment:
Post a Comment