WELCOME TO LONE TECH THE TECH TUITOR   

کہی یہ وبا خود احتسابی کا پیغام تو نہیں ؟

کہی یہ وبا خود احتسابی کا پیغام تو نہیں ؟

(عابد حسین راتھر)

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز سے ہی پوری دنیا کورونا وائرس کی گرفت میں آگئی اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تب سے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔ انسان جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا ایک چھوٹے سے وائرس کے سامنے بےبس ہوکر رہ گیا اور اس وائرس سے بچنے کے لیے اپنی زندگی کے روزمرہ معمول کے بر خلاف احتیاطی تدابیر کے طور پر دن رات گھر میں ہی قید ہوگیا ۔ دنیا کے مختف خطوں میں اس وائرس سے نپٹنے کے لیے مختتلف تدابیر کی گئی لیکن کوئی بھی تدبیر پوری طرح سے کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ یہ وائرس انسانیت کے لیے ایک خطرے کی طرح لاحق ہوگیا اور اس وائرس نے بچوں، بوڑھوں اور کمزور انسانوں کے لیے کچھ زیادہ ہی خوف ناک شکل اختیار کی۔ یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا کہ اس وائرس نے مجموعی طور پر ہر ایک کی زندگی پر بالواسطہ یا بلاواسطہ منفی اثرات ڈال دیے۔ اگرچہ دنیا کے مختلف اداروں اور طبی محکموں نے اس وائرس کے خلاف ویکسین بھی تیار کیے لیکن اس وائرس نے بڑی ہوشیاری سے اپنی شکل و صورت میں تبدیلی و تغیر لا کر پوری دنیا میں افرا تفری پھیلائی۔ پہلے ہی ابنِ آدم کو لاکھوں انسانی جانوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، کروڑوں روپیوں کا اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اب پوری دنیا اس عالمی وبا کی دوسری اور تیسری لہر کے خوفناک انتظار میں ہے۔ ان مشکل حالات میں ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ غم، مصیبت، پریشانیاں اور خوشیاں سب اللّٰہ کی دین ہے۔ ہماری زندگی میں جو بھی حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں اُن کے پیچھے اللہ کی مرضی اور کاریگری ہوتی ہے اور تمام حالات و واقعات ہمارے لیے سبق آموز ہوتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے کام لے اور ان چیزوں سے نصیحت حاصل کرے۔ اس بات کو مد نظر رکھ کر ہم بلا جھجھک کہہ سکتے ہے کہ یہ عالمی وبا بھی اللہ کی مرضی کے مطابق دنیا میں رونما ہوا اور ہمارے لیے خود احتسابی اور نصیحت آموزی کا بہترین موقع ہے۔ 
وبا سے پہلے جو چیزیں ہمیں خیالی نظر آتی تھی اب وہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ اس صدی کے آغاز سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ انسان طبی دنیا میں بھی بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن ایک معمولی نظر آنے والے وائرس نے اس ترقی یافتہ انسان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ کل جو انسان مصنوعی ذہانت کا موازنہ الہامی طاقتوں کے ساتھ کررہا تھا آج وہی انسان اس وائرس کے سامنے بےبس اور حیران ہے۔ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اور ٹیکنالوجی اللہ اور اُسکی عظیم طاقتوں کو جھٹلا نہیں سکتی اور انسانی ٹیکنالوجی کبھی بھی الہامی طاقتوں پر برتری حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ اس وائرس نے بلا تفرق سب لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا۔ ذات پات، مذہب و ملت، رنگ و نسل، سماجی یا اقتصادی بنیادوں پر فرق کیے بغیر سب پر یکساں طور پر حملہ آور ہوکے اس وائرس نے ہمیں یہ بات یاد دلائی کہ بنی آدم اصل میں ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہے اور ان چیزوں پر انسانوں کے بیچ فرق کرنا اصل میں انسان کی کم عقلی ہے بلکہ دنیا کے تمام لوگ اصل میں ایک دوسرے سے جھڑے ہوئے ہے اور اپنی ضروریات زندگی کے لیے ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ مشکلات اور مصیبت میں سوچے بغیر ایک دوسرے کے کام آئے۔ انسان نے کبھی بھی اس بات پر غور نہیں کیا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے وہ صدیوں سے قدرت کی طرف سے عطا کردہ آکسیجن کا مفت استعمال کر رہا ہے۔ اس کے برعکس وہ عیش پرستی میں اتنا غافل ہو چکا ہے کہ اُس کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی سے اس عظیم نعمت کو خود کے لئے زہر بنا رہا ہے۔ اپنی لا محدود اور ہے انداز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان نے اُن جنگلوں کا صفایا کر دیا ہے جو ہوا کو صاف رکھنے میں اہم رول ادا کرتے ہے۔ وبا کے دوران اسی آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لاکھوں افراد کی موت ہوئی۔ اگر قدرت نے کرہ ارض پر یہی آکسیجن مفت میسر نہیں رکھا ہوتا اور اس کے لیے ہمیں کوئی قیمت چکانی پڑتی تو شاید یہاں انسان کا زندہ رہنا ناممکن ہوتا۔ لہذا بنی نوع انسان کا یہ فرض ہے کہ اپنے ماحول کو ہمیشہ آلودگی سے بچائے اور ماحولیاتی توازن میں غیر ضروری مداخلت کر کے اس توازن کو بگاڑنے کے کوشش نہ کرے۔ ہمارے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہم کبھی دو سو کلومیٹر کی دوری پر اتر پردیش کے سہارنپور ضلع سے برف سے ڈھکے ہمالیہ کی خوبصورتی کا نظارہ دیکھ سکتے ہے۔ لیکن اس وبا میں ہوائی آلودگی کی کمی کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ترقی کی دوڑ میں گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوے نے ماحول کو آلودہ کر کے رکھ دیا ہے اور اُسكو قدرت کے خوبصورت نظارے دیکھنے سے محروم کیا ہے۔ پچھلے ڈھائی سالوں سے ہم سب اپنے گھروں میں قید ہے اور ہمارے سماجی روابط اور تعلقات تقریباً منقطع ہوگئے ہیں۔ لوگ اپنے احباب اور رشتہ داروں سے ملنے سے ڈرتے ہیں۔ وبا سے پہلے کچھ لوگ باہمی تعلقات سے دور رہتے تھے اور مادیت پرستی کی وجہ سے صرف اپنے کاروبار میں مگن رہتے تھے لیکن اب وہی لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ترس رہے ہیں۔ اب لوگوں کو باہمی تعلقات اور روابط کی اہمیت سمجھ میں آگئی ہے اور یہ بات ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بیشک انسان ایک سماجی جانور ہے جس کا سماج سے الگ تھلگ ہوکر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ اس کے برعکس انسان کو خوشحال زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ اپنے سماجی تعلقات اچھے رکھنے چاہیے اور ضرورت کے وقت دوسروں کے کام آنا چاہیے۔
موجودہ دور میں اکثر ممالک جنگی اور نیوکليائی ہتھیار بنانے میں مصروف ہیں اور خود کو جنگی میدانوں میں مضبوط بنانے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے وہ دوسرے اہم شعبہ جات مثلاً تعلیم، طب وغیرہ کی ترقی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ لیکن کورونا کے عالمی وبا کے دوران ہم نے یہ اخذ کیا کہ یہ جنگی ہتھیار اس وبا میں بے سود ثابت ہوئے اور مختلف ممالک میں آکسیجن کے سیلینڈروں کی کمی کی وجہ سے لاکھوں اور کروڑوں انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وبا کا مقابلہ وہی ممالک اچھے سے کر رہے ہیں جہاں پر محکمہ صحت کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے مختلف طبّی سہولیات آسانی سے میسر ہے۔ غور کیا جائے تو یہ وبا ہمارے لیے یہ پیغام لے کے آیا ہے کہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ہمیں جنگی اور جوہری ہتھیار بنانے کے ساتھ ساتھ باقی محکموں کی ترقی پر بھی دھیان دینا ہوگا اور باقی محکمہ جات کی ترقی کے لیے یکساں سرمایہ لگانا ہوگا۔ اس وبا کے دوران ہمیں یہ بات بھی سیکھنے کو ملی کہ کسی بھی بیماری یا مصیبت سے بچنے کے لیے توکلت علیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ پرہیز اور احتیاطی تدابیر بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سائنسی تدابیر اور طریقہ کار کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور ہر مصیبت اور مسئلے كا حل مذہبی منتروں سے ڈھونڈتے ہیں ۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مذہبی عقائد کا مذاق اڑا کر ہر چیز کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دین سمجھ کر ہر مصیبت اور پریشانی کا حل صرف سائنسی تدابیر سے ڈھونڈتے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ذہن میں ان دونوں پہلوؤں کے بیچ ایک مستقل اور مساوانہ توازن برقرار رکھے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ آفات اور مصائب سے بچنے کے لئے ہمیں ہمیشہ احتیاطی تدابیر سے کام لینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی پر پورا بھروسہ رکھنا چاہیے اور اس بات پر کامل یقین ہونا چاہیے کی وہی اللّٰہ ہمیں مصائب اور پریشانیوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔  
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com 
موبائیل نمبر : 7006569430

Post a Comment

0 Comments