WELCOME TO LONE TECH THE TECH TUITOR   

*اسلام میں خودکشی کی ممانعت اور خودکشی کا خیال کیوں؟ *

*اسلام میں خودکشی کی ممانعت اور خودکشی کا خیال کیوں؟: انجینیر عارف رمضان*


اللہ رب العزت نے ہمیں بے انتہا نعمتوں سے نوازا ہے۔اگر ایک مسلمان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا عمر بھر شکر بجا لائے پھر بھی ادا نہیں کر سکے گا۔جہاں اللہ نے ہم پر بہت سے احسانات کیے وہاں بڑا احسان زندگی ہے۔کیا خوب کسی نے کہا جان ہے تو جہان ہے۔اگر چہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دولت عطا کر کے اس دولت کا مالک بنایا ہے۔مثلاً مکان کا مالک،باغ کا مالک،گاڈی کا مالک وغیرہ وغیرہ۔ ہم جو چاہے اپنی ملکیت کو کرسکتے ہیں مگر ایک زندگی ہے جو ہماری ملکیت نہیں ہے بلکہ امانت کے طور پر ہمیں دی گئی ہے۔ہم اپنی زندگی کے مالک نہیں ہے۔آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ اس زندگی کو اپنی ملکیت سمجھ کے اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرتے ہیں یعنی خود کشی کرتے ہیں جو کہ اللہ رب العزت نے بالکل حرام کر دیا ہے۔اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتے ہوئے فرماتا ہے۔
 وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (البقرة)
’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْط اِنَّ اﷲَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرًا (النساء)

’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔

امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو)۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔

خودکشی حدیث نبوی کی روشنی میں۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
 فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.(بخاری)
’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘
اس حدیث پاک سے یہ بات واضح عیاں ہوتی ہے کہ ایک انسان کو اپنے جسم کا بھی حق ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعضاء کا بھی حق ہے یعنی ایک انسان کو اپنے جسم کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے۔

خودکشی کرنے والوں کا انجام:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔(بخاری،مسلم،ابوداوود)۔
خودکشی کرنے والا جنت سے بھی محروم رہتا ہے۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا : میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔
ایمان افروز واقعہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور (انصار کے) ایک آدمی کو اُس پر امیر مقرر فرمایا۔ پس اُس نے آگ جلائی اور اپنے ماتحت لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو بعض نے کہا : ہم آگ ہی سے تو بھاگے ہیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن لوگوں سے فرمایا جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا : اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو قیامت تک کبھی اس سے باہر نہ نکلتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا (جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں کیا تھا) : گناہ کے کاموں میں کسی کی اطاعت و فرمانبرداری لازم نہیں۔(بخاری،مسلم)۔
اب یہ بات واضح ہوگئی کہ خودکشی کسی کے کہنے پر یا اپنی مرضی سے کرنا بلکل حرام ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سنگین گناہ سے محفوظ رکھے۔

خودکشی کا خیال کیوں آتا ہے؟
آج کے اس پرفتن دور میں ہر کوئی انسان کہتا ہے کہ میں پریشان ہوں میں مصیبت میں ہوں میں کسی نہ کسی غم میں مبتلا ہو اور یہی غم اور پریشانی ایک انسان کو خود کشی کرنے پہ مجبور کرتا ہے۔
اگر کوئی انسان غم سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو آسان حل یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس پر راضی رہے۔ اور میں آپ کو بتاؤں کہ آپ اور ہم پر کیا غم ہے، کون سی پریشانی ہے، کوئی اتنی بڑی پریشانی نہیں ہے بس پریشانی اتنی ہے ہماری آرزوے پوری نہیں ہوئی ،مجھے یہ چاہیے تھا مگر نہیں ملا، مجھے اتنی نمبرات چاہیے تھے مگر نہیں ملے، کبھی کبھی انسان اس طرح بھی سوچتا ہے میں اتنا تعلیم یافتہ ہوں مگر روزگار نہیں ملا اس کے باوجود دوسرے بندے کو بڑی ڈگریاں بھی نہیں ہے ،اتنی تعلیم بھی نہیں ہے مگر اتنا اچھا روزگار ہے، کبھی کبھی انسان اس طرح بھی سوچتا ہے میں اتنا حسین ہوں مگر میری بیوی حسین نہیں ہے اور دوست کی بیوی حسین ہے۔کبھی کبھی انسان اس طرح بھی سوچتا ہے فلاں بندے کے پاس بڑی گاڑی ہے اور میرے پاس چھوٹی گاڑی ہے، کبھی انسان اس طرح بھی سوچتا ہے فلاں بندے کے پاس بڑا مکان ہے لیکن میرے پاس چھوٹا مکان ہے یہ سب چیزیں سوچنے سے انسان کے اندر ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں انسان کے اندر ہوتی ہے انسان کی آرزو ہے درحقیقت انسان کو ڈپریشن میں مبتلا کرتی ہے جب تک ایک انسان اپنی آرزؤں کو حدود میں رکھے اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہے وہ انسان کبھی غم میں مبتلا نہیں ہوگا۔ انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ میرے چاہنے سے کچھ نہیں ملے گا جو ملے گا وہ اللہ کے چاہنے سے ملے گا۔ اسی لیے اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا "کل میں یہ کام کروں گا" ایسا نہ ہو بلکہ ایسا کہو "کل میں یہ کام کروں گا اگر اللہ نے چاہا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے جب اللہ نے دل دیا ہے تو ظاہر سی بات ہے چاہت بھی ہوگی۔ چاہت کے حوالے سے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک انسان کو کس طرح کی چاہت رکھنی چاہیے اگر ایک انسان کو ایک مکان ہے تو دوسرے مکان کی چاہت ہرگز نہیں رکھنی چاہیے، اگر ایک انسان کو ضروری لباس ٹھیک ٹھاک ہے تو مزید لباس خریدنے کی چاہت نہیں رکھنی چاہیے اگرچہ انسان کتنا بھی دولت مند ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اس انسان نے دل کی ہر چاہت کو پورا کیا مثلاً ہر سال نیا مکان، ہر دن نئے کپڑے، ہر دن نئی گاڑی وغیرہ وغیرہ اس سے اس کے آس پاس لوگوں کی آرزو بڑھ جائے گی اور بندہ آرزو پوری نہ کرسکے گا اور نتیجہ خودکشی نکلے گا ۔دوسری بات اگر ایک انسان کی کوئی آرزو پوری نہ ہوئی تو کیا ہوا، انسان کو روزگار نہیں ملا تو کیا ہوا؟ انسان کی شادی فلاں لڑکی سے نہیں ہوئی تو کیا ہوا؟ انسان کو بڑا مکان نہیں ہے تو کیا ہوا؟ انسان کو گاڑی نہیں ہے تو کیاہوا ؟ انسان کو بینک میں پیسہ نہیں ہے تو کیا ہوا؟ کیا ایک انسان کو ان چیزوں سے پریشان ہونا چاہیے؟ بالکل نہیں۔ خاص کر ایک مسلمان کو ان چیزوں کو لے کر کے غم میں مبتلا کرنا بہت بری بات ہے ایک مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے اللہ نے جو دیا ہے بہت دیا ہے اللہ نے جو میرے ساتھ کیا اسی میں میرے لئے بہتری ہوگی۔ اللہ مجھے چھوٹے مکان میں دیکھنا پسندکرتا ہے تو مسئلہ ختم۔ اللہ مجھے گاڑی کے بغیر دیکھنا پسند کرتا ہے تو بات ختم ۔اللہ مجھے اس لڑکی سے نہیں بلکہ اس لڑکی سے زندگی بسر کرنا پسند کرتا ہے تو بات ختم۔ کیا یہ چیزیں بھی کوئی پریشانی ہیں؟
اچھا اگر ہم ان چیزوں کو پریشانیاں مانیں گے تو آپ امام حسین کی اس حالت کو کیا کہو گے جب امام حسین کو اپنے سامنے اپنے اٹھارہ سال کے بیٹے کا جنازہ تھا ،چھ مہینے کے علی اصغر کی لاشیں سامنے تھی، تمام بھانجے اور بھتیجے امام کے سامنے لاشوں کی صورت میں موجود تھے اور پیچھے بیمار خواتین اور اپنے جسم میں 72 زخم لگنے کے باوجود بھی حتیٰ کہ جب امام حسین کی گردن جدا ہونے والی تھی بلکہ آدھی گردن کٹ گئی تھی امام حسین کی زبان پر ایک ہی تھا میرے رب میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی پریشانی ہوگی دنیا میں امام حسین نے غلط قدم نہیں اٹھایا۔ آج ہماری ایک چھوٹی سی آرزو پوری نہیں ہوتی ہے تو اسے وقت خودکشی ،گھر والوں نے مرضی کی گاڑی نہیں لائی تو خودکشی ،فلاں لڑکی سے شادی نہیں ہوئی تو خوشی، گھر والے وہاں شادی نہیں کرنا چاہتے ہے تو خودکشی ہیں وہاں خودکشی، والدین نے زور سے بات کی تو خودکشی، اچھے نمبرات امتحاں میں نہیں ملے تو خود کشی وغیرہ وغیرہ ۔حقیقت میں انسان کی زندگی کو آرزو فنا کرتی ہے۔اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے خود کشی کا خیال تب آتا ہے جب انسان کے ارمان پورے نہیں ہوتے ہیں اور یہ بات بھی ذہن میں فٹ ہونی چاہیے کیا دنیا ہمارے ارمانوں کے مکمل ہونے کی جگہ نہیں ہے ارمان پورے ہونگے تو جنت میں ہونگے ۔قیامت میں جو تم چاہو گے اللہ تمہیں عطا کرے گا دنیا میں جو اللہ چاہے گا وہی کرنا پڑے گا اور جنت میں جو تم چاہو گے اللہ وہی کرے گا۔ تو آخر میں پھر سے یہ بات میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس دنیا میں زیادہ خوش وہ لوگ ہیں جن کو کم ارمان ہے۔

Post a Comment

0 Comments