WELCOME TO LONE TECH THE TECH TUITOR   

یادوں کا سفر

یادوں کا سفر

(عابد حسین راتھر)

پورے دو سال گزر چکے تھے۔ لیکن  وہ حادثہ جو دو سال پہلے اس کے ساتھ پیش آیا تھا اسکے زخم آج بھی اتنے ہی تازہ ہے جیسے کہ کل کی ہی بات ہو۔  رات بہت ہو چُکی تھی لیکن نیند کا کہی دور تک نام و نشان نہ تھا۔ وہ کسی کروٹ چین  نہیں پارہا تھا۔ اس کے ساتھ گزارے ہوئے سات سال کا ایک ایک لمحہ اس کی آنکھوں میں آج بھی ایک تصویر بن کے سامنے آرہا تھا۔ اس پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ اندھیری رات کے ان  اکیلے لمحوں میں وہ زور زور سے رونا چاہتا تھا اور اپنی روح کو اسکی یادوں کے بھوج سے تھوڑا ہلکا کرنا چاہتا تھا لیکن آواز اس کے گلے میں اٹک کے رہ گئی تھی اور اسکا پورا چہرہ خاموش آنسوں سے بھیگ گیا تھا۔ خاموشی کا منظر ایسا تھا کہ لگ رہا تھا ساری دنیا بڑی دلچسپی اور دھیان سے اسکی روداد سن رہی تھی۔اتنا بڑا بہادر اور بڑی بڑی باتیں کرنے والا شخص آج ایک مجبور لاچار اور بےبس انسان نظر آرہا تھا۔ پرانی یادوں نے آج ایک بار پھر اسے  مسل کے رکھ دیا ۔ یادوں کے اس پس منظر اور آنسوں کے اس سمندر میں کبھی اسکی تصویر دیکھنا تو کبھی اُسّ سے کی ہوئی وہ گئی گزری بات چیت(chat) پھر سے پڑھنا، یوں سمجھ لیجئے پتا نہیں چلا رات کب ڈھلی دن کب چڑھا۔ رات کے سہ پہر میں وہ خود سے بے حس ہوکر نیند میں پڑ گیا اور صبح تک اسکو دنیا و ما فیہا کی کچھ خبر نہ رہی۔ 
صبح ہوئی تو پرندوں کی آوازیں اور انکی چہچہاہٹ سے ساری دنیا کے ساتھ ساتھ اسکی نیم آنکھیں کھلنے لگی۔ معمول کی طرح وہ بھی پچھلی رات کے درد کو اپنے اندر چھپا کر ایسے اٹھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر کے اچھے سے تیار ہوکر وہ بھی مصروف دنیا میں اپنے  زمہ دارانہ کام کے لیے روانہ ہوا اور چہرے پر ایک جھوٹی ہنسی بنائے لوگوں سے گھل مل گیا۔ اسکی یادوں کو اپنے اندر چھپائے اس  کم نہ ہونے والے درد کو سہتا گیا۔ ایک ایسا درد جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایک ایسا درد جو اُسّے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا تھا۔ ایک ایسا درد جس نے اُسّے اسکی تمام خوشیاں چھین کے رکھی تھی۔ ایک ایسا درد جو اس کے لیے ہر چیز سے بھاری تھا۔ ایک ایسا درد جس نے اُسّے جیتے جی مار ڈالا تھا۔ آخر کب تک یہ درد اُسکے اور اسکی خوشیوں کے بیچ دیوار کی مانند کھڑا رہےگا۔ کب تک یہ درد اسکی راتوں کی نیند  اڑا دیگا اور اس کے دن کا سکون چرا دیگا۔  کب تک اس درد کی بنا پر اسکو  یہ جھوٹی ہنسی کا ناٹک کرنا پڑےگا۔  کیا کبھی اس درد سے چھٹکارا ملےگا ؟ یا یوں ہی ساری عمر درد اور اسکے بیچ ایک سمجھوتہ رہیگا !!
وہ چاہتا تو اُسکو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا۔ وہ ضرور اُس کو حاصل کرتا لیکن شاید اُسکی عزت کی قیمت پر۔ مگر نہیں وہ اُس سے زیادہ اُسکی عزت کا خیال رکھتا تھا اور اُس کا احترام کرتا تھا۔  وُہ  اتنا عظیم بھی نہیں تھا کہ اپنے محبت کی قربانی دیتا مگر اس بار  اُس نے ان کے لیے قربانی دینے کو ہی محبت سمجھا۔ اور شاید اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ  اُسّ کو محسوس ہوچکا تھا کہ اُس کے ذہن میں کسی اور کا تصوّر آچکا ہے اور کوئی اور اس کے دل و دماغ میں گھر کر چکا ہے۔ یہ سب محسوس کرتے ہی وہ خود پیچھے ہٹ گیا۔ 
کبھی  اُسکی محبت نے اُس سے  وعدہ  کیا تھا کہ اُس کے ذہن میں کسی اور کا تصوّر آنا بھی حرام ہے لیکن اب وعدہ خلافی ہو چکی تھی۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ انکی روح اور اُنکا وجود  اُس سے اور اسکی محبت سے وعدہ خلافی کر چکا تھا۔  اب اگر کچھ باقی رہ گیا تھا تو وہ تھا ایک فرضی رشتہ جو حقیقت میں کوئی رشتہ ہی نہیں تھا بلکہ صرف ایک مہربانی تھی اور ایک ہمدردی۔ انکی یہ بات کہ ہم دونوں ایک ہے اب محض ایک بےجان بات رہ گئی تھی کیونکہ اس 'ایک' میں کسی دوسرے کے قدم پڑ چُکے تھے اور محبت میں بیوفائی ہو چکی تھی۔ اب آخر میں اس کے ذہن میں صرف یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ کیا یہ اُنکا شوق تھا، انکی مرضی تھی یا پھر انکی مجبوری!!! اور اب شاید تاحیات یہ سوال بنا جواب کے ہی اس کے ذہن میں گردش کرتا رہےگا۔

مضمون نگار کولگام ڈگری کالج میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔ 

رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل:  rather1294@gmail.com 
موبائیل نمبر:7006569430

Post a Comment

0 Comments