WELCOME TO LONE TECH THE TECH TUITOR   

جذباتوں کی تربیت

جذباتوں کی تربیت

(عابد حسین راتھر)


انسان جیسے ہی اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وہ یہاں کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور آئے دن نئی چیزوں اور نئے عوامل کا علم حاصل کرتا ہے۔ چونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان کو مختلف اعضاء عطا کیے ہے جن کے وجہ سے وہ محسوس کرنے کی قوت رکھتا ہے یہی اعضاء اُس کو پہلے پہل نئی چیزوں کا علم عطا کرتے ہے اور نئے عوامل سیکھنے میں مدد کرتے ہے۔ بعد میں پھر وہ زندگی کے حاصل کردہ تجربات سے اور سماج میں پہلے ہی رائج کردہ علم سے نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اس کی پرورش کرنے کے دوران چاہتے ہے کہ اُنکا بچہ صرف اچھی چیزیں سیکھے، اس میں صرف اچھے عادات حامل ہوجائے اور تو اور اُنکا بچہ صرف وہی سیکھے جو وہ لوگ اسکو سکھانا چاہتے ہو اور اس کے سوا اور کچھ نہ سیکھے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیقات کے مطابق بچے کی پیدائش سے لیکر چھے یا ساتھ سال کی عمر تک بچے کے دماغ کا % 95-90 حصہ لاشعوری طور پر کام کرتا ہے یا ہم یوں کہہ سکتے ہے کہ بچے کی %95 سوچ غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچے کا شعور بڑھتا ہے جو اسکو اپنی سوچ اور اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ مختصراً بچپن کے تجربات اور بچپن کا سیکھا ایک انسان کی شخصیت کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ تقریباً تمام والدین کو معلوم ہے کہ بچوں کو کچھ سکھانے کے اعتبار سے اُنکا بچپن بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ بچپن میں ایک بچہ وہی کچھ سیکھتا ھے جو اسکو سکھایا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں وہی باتیں گھر کرتی ہیں جو اس کے ذہن تک پہنچا دی جاتی ہے کیونکہ بچے کے دماغ کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بہت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مختلف والدین اپنے بچوں کے ذہن میں الگ الگ قسم کی سوچ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو کیا سکھانا بہتر رہیگا اسکا معیار مختلف طبقے اور مختلف سماج کے لوگوں میں الگ الگ ہوتا ہے اور یہ معیار وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو سکھانے کے طریقے اور وسائل بھی الگ الگ ہوتے ہے۔ اس کے باوجود تمام والدین کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سماج کے مختلف عقائد، رسومات اور مختلف معیارِ زندگی سے روشناس کرائے اور اسکو ان تمام چیزوں کی تربیت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی مختلف آرزو اور تمنّائے کرتے ہیں۔ 
ہم اکثر سنتے ہے کہ کچھ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے ڈاکٹر بنے، وکیل بنے، پائلٹ بنے یا ایسے ہی کسی اونچے سرکاری عہدے پر فائض ہوجائے۔ مختلف طبقے کے لوگوں میں مختلف تمنّائے ہوتی ہے اور یہ تمنّائے پوری کرنے کے لیے مختلف لوگ مختلف طرح کی کوششیں کرتے ہیں تاکہ اُنکے بچے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو اونچے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلاکر اُنکے مقاصد پورے کرنے میں انکی مدد کرتے ہے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو آزادی دے کر اُنہیں خود اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینے کی اجازت دیتے ہے اور پھر اسی حساب سے انکی رہنمائی کرتے ہے۔ لیکن کیا ہمارے سماج میں والدین کبھی اپنے بچوں کے جذباتوں کی تربیت کرتے ہے۔ کیا وہ کبھی اس بات پر دھیان دیتے ہے کہ بچے کے جذبات کا اسکی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان باتوں کا جواب شاید منفی میں ہے۔ تربیت کے دوران والدین اپنے بچوں کے مختلف مسائل پر دھیان دیتے ہیں جیسے کہ کیا بچہ پڑھائی کرتا ہے، کیا وہ صاف ستھرا رہتا ہے ، وقت پر کھانا کھاتا ہے، کھیل کود میں حصہ لیتا ہے، کہی اُنکا بچہ جھوٹ تو نہیں بولتا، کیا اُنکا بچہ فرمابردار ہے یا نہیں، کیا اُنکا بچہ وقت پر گھر آتا ہے یا نہیں، کہی اُنکا بچہ کسی نشے میں مبتلا تو نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح سے وہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھ کر انکی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتے ہے۔ لیکن اس بات پر کتنے والدین دھیان دیتے ہے کہ کہی اُنکے بچوں کے ذہن میں یہ خیال گردش تو نہیں کر رہا ہے کہ اُنہیں خاندان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کیا اُنکے بچے جذباتی طور پر اپنی زندگی سے اور اپنے آپ سے مطمئن ہے۔ کہی اُنکے بچے تنہا یا غیر محفوظ محسوس تو نہیں کررہے ہیں یا کہی اُنکے بچے کسی قسم کے وسوسے کا شکار تو نہیں ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ان مسائل پر دھیان دینے سے قاصر رہ جائے تو یہ مسائل بچوں کے ذہن پر ایک گہری چھاپ چھوڑتے ہے اور یہ چھاپ زندگی بھر اُن کے ذہن کو بری طرح سے اثر اندوز کرتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ان مسائل پر وقت پر دھیان دیا جائے تو مستقبل میں انکی شخصیت مستکحم، مضبوط اور مربوط بنتی ہے۔ مستکحم اور مربوط شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں استحکام ہو۔ غیر محفوظیت، خود اعتمادی کی کمی، تنہائی اور دوسرے جیسے عناصر ایک انسان کو کمزور بناتے ہے جنکی وجہ سے وہ ہمیشہ غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور آخر میں یہی عناصر اس کے استحصال کا باعث بنتے ہے۔ 
بچوں کی تربیت کے دوران ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اُنکے عادات و اطوار پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اُن کے جذباتوں کی قدر کرنے چاہیے۔ تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کو پیار و محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اُنہیں کبھی تنہا محسوس نہیں کرانا چاہیے۔ بچوں کے جذبات کی تربیت والدین کے پیار بھرے جذبات سے ہی ہوسکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اپنے جذبات اظہار کرنے کا ہنر سکھایا جائے۔ اُنہیں اپنے بچوں سے اس طرح پیش آنا چاہیے کہ بچے اپنے جذبات اظہار کرنے میں آزادی محسوس کرے۔ والدین پر یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں کے جذبات کی تربیت کرے اور اُن کو سماج کے مختلف معیاروں پر کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کو روشن اور تابناک بنائے۔ ایک انسان کی شخصیت روشن اور تابناک تب ہی ہوسکتی ہے جب اسکی پرورش اور تربیت اچھے طریقے سے کی گئی ہو اور جذبات کی تربیت بچوں کی تربیت کا ایک اہم جُز ہے۔ چونکہ ہم دنیا کے ایک ایسے متنازعہ خطے میں رہتے ہے جہاں سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے آئے دن حالات خراب رہتے ہے جسکی وجہ سے ہمارے یہاں بہت سارے لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔ بہت سارے بچے یتیم ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں جسکی وجہ سے وہ بہت ساری ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں اُن بچوں کے جذباتوں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا ایسے بچوں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ انکی تربیت اچھے سے کرے۔ اُن کے جذبات کا خاص خیال رکھے اور اُنہیں کبھی بھی تنہا یا غیر محفوظ محسوس نہ ہونے دے تاکہ آگے چل کر ایسے بچے کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اگر وقت پر جذباتوں کی تربیت اچھے سے نہ کی جائے تو انسان یا تو کوئی غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر زندگی میں ایک ناکام شخص بن کر رہ جاتا ہے۔

مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔  
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com 
موبائیل نمبر : 7006569430

Post a Comment

0 Comments