اللہ کی آغوش میں ہی آزادی ہے
اگرچہ اس وقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈا چلایا جا رہا ہے اور مسلم مخالف لوگ اسلام کے خلاف پرچار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اسلام دنیا میں بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں مختلف عمر، مختلف جنس ، مختلف ذات اور مختلف پس منظر کے لوگ اسلام کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا رہے ہے۔ اب ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کی آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اسلام میں ایسی کیا کشش ہے جو یہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کر رہا ہے۔ در اصل اسلام ایک فطری دین ہے اور اس میں ایک ممتاز سادگی ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام میں کئی مسلكوں نے جنم لیا اور اس دین کو پیچیدہ بنایا لیکن قرآن کریم میں پیش کیا ہوا اسلام بہت ہی آسان اور خوبصورت ہے اور انسان کو ازحد آزادی عطا کرتا ہے۔ یہ دین انسان کو سکھاتا ہے کہ صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے اور کل ہم اس کے سامنے ہی اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہونگے۔ اس میں ایک گہری بات مضمر ہے۔ آج جب کہ انسان دنیا میں لاکھوں ہزاروں داتاؤں کا محتاج بن گیا ہے اور سماج میں صحیح غلط کا فیصلہ کرنے والے ہزاروں آقاؤں کا غلام بن کے رہ گیا ہے۔ ایسی صورت میں اسلام انسان کو ان زنجیروں سے آزاد کر تا ہے۔ جب ایک انسان اللہ کا سامنے جھک جاتا ہے تو وہ اس خیال سے آزاد ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی زندگی موجودہ دنیا کے اقاؤں کے مقرر کردہ اصولوں کے حساب سے جینی ہے نا ہی وہ اپنی عقل و طاقت اس چیز میں صرف کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو پسند آجائے یا نہیں۔ اس کے برعکس وہ اسی لگن میں رہتا ہے کہ اُسکا زندہ رہنا بس ایک اللہ کو پسند آجائے باقی اسکو کسی چیز کی فکر نہیں رہتی ہے۔ وہ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش، جو کہ حقیقت میں ایک ناکام کوشش ہے، چھوڑ دیتا ہے۔
جیسے ہی ایک انسان اللہ کے سامنے سر خم تسلیم کرتا ہے اُسکا ذہن غیر ضروری پریشانیوں اور خوف سے آزاد ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک نوجوان خدا شناخت ہوجاتا ہے تو وہ خود کو غیر ضروری چیزوں جیسے سوشل میڈیا، فیشن ٹرینڈز وغیرہ سے آزاد پاتا ہے۔ اُسکا ہر کام اپنے دوستوں اور دنیا کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک ایماندار اور مومن تاجر کے لیے صرف یہ چیز ضروری ہوتا ہے کی وہ اپنی تجارت ایمانداری سے کرے نا کہ ناجائز منافع کے لیے۔ ایسا انسان ناجائز منافع کے لیے بے ایمانیِ نہیں کرتا ہے اور نا ہی اس کے اندر مادیت کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک مسلمان اور خدا شناخت عورت سماج کے مقرر کردہ دستور کے حساب سے ایک اچھی بیوی بننے کے بجائے اللہ کے مقرر کردہ اصولوں کے حساب سے ایک نیک سیرت بیوی پسند کرنا چاہیگی اور اپنے خاندان اور اپنے بچوں کو خدا کا نور سمجھ کر انی سے بے انتہا محبت کریگی۔ یہ سب لوگ جب اللہ کی آغوش میں آتے ہیں تو دنیاوی بتوں کی غلامی سے آزاد ہوجاتے ہے اور صرف ایک اللہ کی غلامی پسند کرتے ہیں جو انہیں بہت چاہتا ہے، انکا بے انتہا خیال رکھتا ہے اور ان سے بہت محبت کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہزاروں ایسے لوگ جو اللہ سے دور رہتے ہیں یہ سمجھتے ہے کہ وہ آزاد ہے لیکن وہ حقیقتاً ہزاروں لوگوں کی امیدوں، خواہشوں اور خیالوں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ سماج کے نئے ایجاد کردہ فیشن کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو مطمئن اور خوش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اس طرح وہ ذہنی غلام بن کے رہ جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنا مزاج لوگوں کی ضرورت کے حساب سے وقت کے ساتھ بدلنا پڑتا ہیں ورنہ سماج کے لوگ اُنہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس جذباتی بھنور میں آخر کار وہ تھک جاتے ہیں انکا ذہن اور انکی روح اس دوڑ میں تھک کے ہار جاتے ہیں اور نتیجتاً وہ آخر میں اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتے ہے۔
اس کے مقابلے میں جب انسان کے اندر ایمان کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ صرف ایک اللہ کو خوش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ صرف اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں دوسرے آقاؤں کو خوش کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے نا ہی اُن کے قابل تبدیل اصولوں اور امیدوں پر خود کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مومن بھی باقی شہریوں کی طرح سماج میں ایک عام زندگی گزارتا ہے۔ وہ بھی سماج کے قوانین، سماج کے معیار اور دوسرے شہریوں کی عزت کرتا ہے۔ لیکن وہ خود کو دوسروں کے خیالوں اور دوسروں کی خواہشوں کا غلام نہیں بناتا ہے جو خود حقیقت میں اسی کی طرح اللہ کے بےبس غلام ہے۔ آجکل اکثر لوگ اس مسلے سے بخوبی واقف ہے اور اپنے ذہن کو اس قید سے آزاد کرنے کے لیے وہ مختلف تدابیر استعال کرتے ہیں۔ لیکن یہ تب تک نا ممکن ہے جب تک وہ اس مسلے کی اصل وجہ نہیں سمجھینگے۔ اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس غلامی کی اصلی نجات اللہ کی حقیقی محبت میں ہے ۔ اُنہیں اللہ کی عظمت کو سمجھنا چاہیے کہ کس طرح خالق کائنات نے خوبصورتی کے ساتھ کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اُنہیں سمجھنا چاہیے کی اللہ جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے بے انتہا اور بےحد طاقت کا مالک ہے۔ یہ کائنات جس توازن کے ساتھ برقرار ہے اللہ کی عظمت کا ثبوت ہے۔ اُنہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دنیا کی ہر چیز اور ہر لمحے پر اللہ کا کنٹرول ہے یہاں تک کہ دنیا کے سات ارب لوگوں کے دل کی دھڑکنوں پر بھی اللہ کا ہی کنٹرول ہے۔
جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہے اور اس کا مطالعہ کرتے ہے تو یہ بات ہمارے ذہن میں آتی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتوں کے بدلے اللہ ہم سے اسکی بندگی چاہتا ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اسے محبت کرے اور اسکی حمدو ثنا کرے۔ ہمارا وجود ہی اللہ کی بندگی کے خاطر ہے اور اسی میں ہماری خوشی ہے۔ لہذا ہمیں دنیاوی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اللہ کی آغوش میں آنا چاہیے۔ اسی میں ہماری اصل خوشی ہے اور وہی ہمارے لیے حقیقی آزادی ہے۔
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 Comment:
Post a Comment