WELCOME TO LONE TECH THE TECH TUITOR   

مسلم نوجوان اور جدید تعلیم


جدید تعلیم اور مسلم نوجوان 




 


(عابد حسین راتھر)


اسلام ایک ایسا دین ہے جسکی بنیاد گمراہی یا لا علمی پر نہیں  بلکہ اس دین میں انسان کو بار بار علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔  اسلام میں علم حاصل کرنے کی اہمیت ہمیں اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف سے پہلی وحی جو نازل ہوئی اس میں بھی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔  اسی طرح آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے پہل مسلمانوں میں علم حاصل کرنے کا بہت زیادہ شوق و ذوق تھا اور مساجد پڑھنے پڑھانے کے مراکز تھے اور بہت صدیوں تک مسجدوں میں دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو آراستہ کیا جاتا تھا۔ پوری دنیا میں اب اس بات کا تصدیق کیا جاتا ہے علم حاصل کرنے میں اور اسکا پرچار کرنے میں اور اسکی ترقی میں اسلام کا ایک بہت بڑا رول رہا ہے۔ ہجری دور کی پہلی پانچ صدیوں ( عیسوی دور کی آٹھویں سے بارہویں صدی تک) کو اسلامی عظمت اور اسلامی شان کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔  یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں نے سوچ سمجھ کی دنیا میں عروج کا مقام حاصل کیا تھا۔ مسلمانوں نے علم کی دنیا میں بہت ترقی حاصل کی تھی۔ اس دور میں مسلمانوں کے اندر علم حاصل کرنے کی ایک ایسی تشنگی تھی جو شائد ہی تاریخ میں اسے پہلے کسی قوم میں دیکھی گئی تھی۔ اسلامی تہذیب اپنے کمال پر تھی اور مسلمان علم کے مختلف میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے۔ اس کامیابی کا ایک اہم راز  اسلام کا علم کی طرف لوگوں کو ترغیب کرنے کا تھا۔  چونکہ اسلامی نظریہ کے حساب سے علم حاصل کرنا فرض ہے یہی وجہ تھی کہ لوگوں کا رحجان علم حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا۔

سنہری دور کے مسلم علماء کی عظمت اور خاصیت یہ تھی کہ اُنہوں نے علم کے مختلف میدانوں میں ترقی کے لیے اور علم کے مختلف میدانوں میں اسلام اور اس کے  اقدار کی مطابقت قائم کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔ اُنہوں نے ہر شعبے میں برتری حاصل کی اور مؤثر  طریقے سے علم کا  استعمال کر کے اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔ جب مختلف اسباب کی وجہ سے اس عروج کہ زوال آگیا اور مسلمان سیاسی اور علمی طور پر دنیا میں پست ہوگئے تو غیر مسلموں نے انکی جگہ لے لی اور اپنے جوش اور ولولے سے علم کے ہر شعبے کے بے تاج بادشاہ بن گئے اور  علم کی دنیا میں لا ثانی رہبروں کی مثال قائم کی۔ مسلمانوں کی اس پست حالت کو ختم کرنے کے لیے چند مسلم    فلسفیوں اور دانشوروں نے مختلف اقدامات اٹھائے اور کئی تحریکیں شروع کی گئی تاکہ مسلمانوں کو دنیا میں پھر سے سیاسی، تعلیمی، معاشی اور فوجی برتری حاصل ہو۔ کئی ممالک میں مسلمانوں کو مغربیت کا جامہ پہنایا گیا یا پھر روایتی اسلامی نظام کے ساتھ ساتھ مغربی نظام بھی قائم کیا گیا۔ ان اقدامات سے کوئی خاص فائدہ ہونے کے برعکس امت مسلمہ کمزور ہی ہوگئی کیونکہ مغربی روایات اسلامی روایت سے قطعی طور پر متضاد تھی۔ تعلیمی محاز پر کچھ مسلمانوں نے مسلم برادری کو جدیدیت کا جامہ پہنا کر  کچھ اصلاحات کی جن کا خاص مقصد مسلم سماج کی معاشی حالت بہتر کرنا تھا۔ جدید طرز عمل پر کچھ یونیورسٹیاں قائم کی گئی جن میں جدید مغربی تعلیم کا طور طریقہ اپنایا گیا۔ اُن کی کوششوں کا بھی کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا کیونکہ اُن  کی عمل اس مفروضہ پر قائم تھی کہ صرف جدید تعلیم ہی مسلمانوں کی حالت سدھار سکتی ہے اور اس کے کوئی منفی نتائج نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات سے بےخبر تھے کہ جدید تعلیم مغربی سوچ اور مغربی سماج کی پیداوار ہے لہذا یہ تعلیم مغربی سماج میں ہی نشونما پا سکتی ہے اور اسی سماج میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کر سکتی ہے۔  اسلامی نظام اور مغربیت چونکہ دو الگ اور متضاد اصطلاحات ہے لہذا یہ تعلیم  اسلامی نظام میں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی ہے  یہی وجہ تھی کہ اُن کی اصلاح عمل کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ دوسری طرف اسلام کی  روایتی تعلیم جو جمود کا شکار ہوگئی تھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی قائدین نے کئی اسلامی ادارے قائم کیے  جن کا مقصد مسلم نوجوانوں کو خالص اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرانا تھا۔ نظریاتی طور پر یہ ادارے مغربی تعلیم کے مخالفین تھے لہذا ان دینی مدرسوں نے نا ہی مسلم نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرایا نا ہی جدید مغربی تعلیم حاصل کرنے کا رواج قائم کیا۔  اس تحریک کے پیشواؤں کے خیال میں اسلامی روایات والا مستقبل قائم کرنا تھا لہذا وہ ایسا ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں جدید تعلیم کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔  نتیجۃً روایتی اسلامی مدرسوں اور جدید آزاد خیال یونیورسٹیوں نے دو الگ الگ قسم کے اسکالر یا عالم پیدا کیے۔ ایک، روایتی عالم جو اسلامی تاریخ، اسلامی قوانین،  اسلامی فقہ، قرآن و سنت میں ماہر تھے لیکن جنہیں جدید تعلیم اور سائنس میں کوئی خاص واقفیت نہیں تھی۔ دوسرا، جنہوں نے مغربی تعلیمی نظام میں اپنی تعلیم حاصل کی تھی اور جنہیں  جدید تعلیم، جدید فلسفہ اور سائنس میں ماہریت تھی لیکن انکا اسلامی علم نماز، روزہ اور مختلف مواقع کے رسومات تک محدود تھا۔ اُن میں شاید ہی کچھ مسلمان عالمِ تھے جنہیں اسلامی علم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی اور سماجی علوم پر عبور حاصل تھا۔

آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں جدید تعلیم حاصل کرنے کی ایک مضبوط لگن ہے۔ ہر سمت لوگ جدید مغربی تعلیم کی دوڑ دھوپ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔  مسلمان ممالک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلم نوجوانوں کو غیر اسلامی کتب، غیر مسلموں کے کارنامے اور بین الاقوامی مسائل پڑھائے جاتے ہیں۔ مسلم نوجوان بہت کم اسلامی علم کے ساتھ یونیورسٹیوں میں داخل ہوتے ہیں جو اُنہوں نے گھر پر یا پڑھائی کے ابتدائی مرحلے میں اسکول میں حاصل کیا ہوتا ہے۔ جب انہیں وہاں پر کتابوں کے زریعے مُختلف نظریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ان نظریات کی اسلامی وضاحت دینے کے لیے خود کو معذور پاتے ہیں جسکی وجہ سے اُن کے دل میں اپنی اسلامی میراث اور اپنے علماء  کے لیے شک و شہبات پیدا ہوتے ہے۔ دوسری طرف آجکل کے اکثر اسلامی دانشور جو اپنی تعلیم مغربی تعلیمی نظام میں مکمل کرتے ہے، اسلام اور اسلامی نظریات کی کم علمی کی وجہ سے بہت سارے مسائل کا اسلامی حل ڈھونڈنے کے لیے لاچار اور بےبس  ہوتے ہیں۔

موجودہ دور کے مسلم نوجوان ایک انتہائی نازک وقت سے گزر رہے ہے۔ غیر مسلموں کی طرف سے  قرآن کی کاملیت، حدیثوں کی صداقت، شریعت کی جامعیت اور مسلمانوں کی تاریخی شان اور اُن کے کارناموں کی تردید اس غرض سے کی جا رہی ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کے دل و دماغ میں شک و شبہات  پیدا ہو اور اُن کا ایمان کمزور ہوجائے۔ اسلامی کم علمی کی وجہ سے بہت سارے نوجوان اس سازش کا شکار ہورہے ہے اور آہستہ آہستہ اسلامی تہذیب اور اسلامی طرزِ زندگی بکھرتی جا رہی ہے۔ لہذا تعلیمی مسائل کا حل ڈھونڈنا اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی تجدید کی تب تک کوئی حقیقی اُمید نہیں ہے جب تک اسکے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں نہیں لائی جائیگی اور اسکی غلطیوں کو ٹھیک نہیں کیا جائیگا۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو سیکولر نظام میں پیش کرے اور  اسلامی نظام کو جدید تعلیم سے متعارف کروائے۔  اپنے بچوں کو پڑھائی کے ابتدائی اور سیکنڈری مرحلے میں مشینری اسکولوں میں اندراج کروانا مسلمانوں کی ایک بڑی غفلت ہے۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ وہاں انکا مستقبل تابناک اور روشن کیا جائیگا لیکن ہم شاید اس بات سے بےخبر ہے کی وہاں پر انکا نظریہ کس طرح تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہر مسلم نوجوان کے لیے اپنے دین، اخلاقیات، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کی واقفیت ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس بارے میں سبھی والدین کل قیامت کے روز اللہ کے سامنے جواب دہ ہونگے۔ لہذا سبھی اسلامی والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ابتدائی مرحلے میں اسلامی تعلیم سے آراستہ کرائے۔ اس بات میں کو دورائے نہیں ہے کہ مسلم نوجوان کو تعلیم کے ہر میدان میں ماہريت ہونی چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے خاص مضمون کے ساتھ ساتھ اسکو اسلام کے بنیادی اصولوں، عقیدوں اور اسلامی تاریخ کا بھی علم ہونا چاہیے۔ ہر مسلم نوجوان کے دماغ میں یہ بات ذہن نشین کرانی چاہیے کہ اسلام ایک جامع دین ہے جس میں ہر انسانی مسئلے کا حل ہے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی ، معاشی ہو یا تہذیبی۔ ہر مسلم نوجوان کے لیے اسلامی تصّور  کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ خود کو اور دوسرے لوگوں کو غیر اسلامی نظریات سے بچائے۔

ہماری یہ ایک غلط سوچ ہے کی صرف جدید مغربی علم حاصل کرنے سے ہم موجودہ مسلمانوں کی حالت کی اصلاح کر سکتے ہے۔ کیونکہ ایسی تعلیم ہماری ذہن میں صرف مادیت کا تصور پیدا کرتی ہے۔ اسکے برعکس اگر جدید تعلیم کو اسلامی تصّور کے ساتھ حاصل کیا جائے تو ہم انسانیت کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پائینگے۔ علم حاصل کرنے کا اسلامی نکتہ نظر ہمیشہ بہت ہی مربوط اور  مکمل رہا ہے۔ آجکل جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں کس قسم کا تعلیمی نظام رائج ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کی یہ نظام مسلم نوجوانوں کو اُمتِ مسلمہ کے درپیش مسائل حل کرنے میں انکی مدد یا انکی حوصلہ افزائی کرنے میں نا اھل ہے۔  ایسے نظام کی مکمل تبدیلی ضروری ہے۔ کردار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اخلاق و اقدار کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آجکل کے مسلمان ایک خوفناک اور خطرناک بےچینی کے شکار ہے۔ اس بےچینی کی بنیادی وجہ انکا دانشوری اور طریقہ کاری زوال ہے  اور یہ بیماری اُنکے تعلیمی نظام میں پرورش پارہی ہے۔ اس حقیقت کو مدّنظر رکھ کر کہ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم کسی سماج میں تبدیلی لا سکتے ہے مسلم نوجوانوں کے لیے اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم حاصل کرنے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔  جدید تعلیم اور اسلامی تعلیم کے درمیان ایک توازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام نے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے  پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ ایک مسلم نوجوان اپنے اسلامی نکتہ نظر کی قدر و قیمت کم کیے بغیر جدید تعلیم میں ماهریت حاصل کر سکتا ہے۔ ایک ایسا اسلامی دانشور جسکے پاس اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کا بھی فہم ہو بہت ہی اچھے طریقے سے  اُمتِ مسلمہ کے درپیش مسائل کا  حل ڈھونڈ سکتا ہے۔ 


مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔  

رابطہ :

عابد حسین راتھر

ای میل:  rather1294@gmail.com 

موبائیل نمبر :  7006569430

Post a Comment

0 Comments