حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ آفتاب رسالت طلوع ہوا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز نامانوس نہیں رہی تھی، چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے، حضرت سعیدؓ کا نکاح حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا، اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہوگئیں، اسی خاندان میں ایک معزز شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن حضرت عمرؓ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے، یہاں تک کہ قبیلہ میں جو لوگ اسلام لاچکے تھے، ان کے دشمن بن گئے، لبینہؓ ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ’’دم لے لوں تو پھر ماروں گا‘‘، وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ ’’اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو خدا اس کا انتقام لے گا‘‘، لبینہؓ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا زد و کوب سے دریغ نہ کرتے تھے، اسی طرح حضرت زنیرہؓ حضرت عمرؓ کے گھرانے کی کنیز تھیں اور اس وجہ سے حضرت عمرؓ کو جی کھول کر ستاتے، جب ان کے چچازاد بھائی سعید بن زیدؓ اسلام لائے تو حضرت عمرؓ نے ان کو رسیوں سے باندھ دیا، لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔
چونکہ قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لیے دوسرے حربے ان پر کامیاب نہ ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے ان سب سے کارگر حربہ کو ان کے مقابلہ میں استعمال کیا جس کے وار کی کوئی روک نہیں ہوسکتی تھی۔
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی:
’’اللھم اعز الاسلام بأحد الرجلین اما ابن ھشام و اما عمر بن الخطاب‘‘ (خدایا اسلام کو ابوجہل یا عمر بن الخطاب سے معزز کر)
مگر یہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمرؓ کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا، ’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘۔
تاریخ و سیر کی کتابوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تفصیلات اسلام میں اختلاف ہے، ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں یہ ہے کہ جب حضرت عمر اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے، راہ میں اتفاقا نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: ’’خیر تو ہے؟‘‘ بولے: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں‘‘، انھوں نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے ہیں‘‘، فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پا کر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے، لیکن آواز ان کے کان میں پڑچکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں ’’کچھ نہیں‘‘، انہوں نے کہا: ’’میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو‘‘، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوگئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی یہاں تک کہ ان کا جسم لہولہان ہوگیا، لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا، بولیں: ’’عمر! جو بن آئے کر لو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا‘‘، ان الفاظ نے حضرت عمرؓ کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا: ’’تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ‘‘، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیئے، اٹھا کر دیکھا تو یہ سورہ تھی:
(یسبح للہ ما فی السموات و الارض و ھو العزیز الحکیم)
(زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے)
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: (آمنوا باللہ و رسولہ) (خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ)
تو بے اختیار پکار اٹھے:
(اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ)
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقمؓ کے مکان پر جو کوہِ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزیں تھے، حضرت عمرؓ نے آستانہ مبارک پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تردد ہوا، لیکن حضرت حمزہؓ نے کہا: ’’آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا‘‘، حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: ’’کیوں عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خضوع کے ساتھ عرض کی: ’’ایمان لانے کے لیے‘‘، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونج گئیں۔
یہی روایت تھوڑے تغیر کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورۂ حدید کی آیت ’’سبح للہ ما فی السموات و الارض‘‘ ہے۔ دوسری میں سورہ طہ کی یہ آیت ہے: (اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی و اقم الصلوۃ لذکری)
(میں ہوں خدا کوئی نہیں معبود لیکن میں، تو مجھ کو پوجو اور میری یاد کے لیے نماز کھڑی کرو)
جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ’’لاالہ الا اللہ‘‘ پکار اٹھے اور درِ اقدس پر حاضری کی درخواست کی۔
خیر جو عمر سر لینے آیا تھا وہی عمر سر دے کے قربان ہوا۔یااگر عشق کے اندازے میں کہا جائے جو عمر شکار کرنے آیا تھا وہی عمر چہراے انور کا شکار ہوا۔
*کہاں وہ مرتبہ کہاں یہ مرتبہ*
جب دائرہ اسلام میں آیا تو پھر اسی کے لیے کہا گیا *لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ* اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا , پھرفرمایا جاتا ہے *إِنَّ الشَّيْطَانَ يَفِرُّ مِنْ ظِلِّ عُمَرَ* بیشک شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے پھر فرمایا جاتا ہے میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔”عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے”اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمرؓ کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمرؓ کا پلڑا بھاری ہوگا”حضرت علی مرتضیؓ سے روایت ہے” عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ کہاں وہ زندگی کہاں یہ زندگی فرق صرف توبہ کی ہے الغرض یہ ایمان افروز واقعہ بھی ہمیں پختہ توبہ کی تلقین کرتا ہے
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهٗ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فَجِيْرِيْلُ وَمِيْکَائِيْلُ، وَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما ہیں۔ ‘‘
حضرات ابوبکر ؓ و عمر ؓ کا مقام
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ حَنْطَبٍ رضي اللہ عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم رَآي أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ فَقَالَ : هَذَانِِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبداﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘
اور ایک روایت میں یوں بھی پڈھنے کو ملتا ہے جب عمر نے ایمان لایا تو عرض کیا ،اے اللہ کے رسول ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں، خواہ زندہ رہیں، خواہ مریں ؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو ...
حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا کہ پھر چھپنا کیسا ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ہم ضرور باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے۔ ایک صف میں حمزہ ؓ تھے اور ایک میں میں تھا۔ ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ ؓ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔ اسی دن رسول اللہﷺ نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔
*آپکی سیرت اور خلافت*
اختصار کے ساتھ اپنے پڈھنے والوں سے مخاطب ہو ں کہ تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ عدل و انصاف کی بات ہو تو اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنے، پرائے، کمزور و طاقتور میں فرق نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنے متعین کردہ گورنر اور اپنے بیٹے کے لئے بھی انصاف کا مظاہرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح کسی عام آدمی پر عدل و انصاف کا اطلاق کرتے۔ یہی وہ صفات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے پس پردہ کار فرما نظر آتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں، اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔
اس زمانے میں جب لکھنے پڑھنے کی طرف مطلق توجہ نہیں دی جاتی تھی اور بعثت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت مکہ میں صرف 17 لوگ ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، ان میں ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔
(فتوح البلدان، علامه بلاذری)
قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ بعض اوقات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید ہوجاتی اور جبرائیل امین علیہ السلام آیات قرآنی کی صورت میں بارگاہ رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر موافقت فرماتے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک ہزار چھپن شہر مع قصبات و دیہات فتح ہوئے۔ روم و ایران کا جاہ و جلال سرنگوں ہوا۔ چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ 10 سال 6 ماہ 4 دن کے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ جس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، ایران، آرمینیہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران شامل تھے۔
(تاريخ ابن خلدون)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف یہ کہ فتوحات کا دائرہ وسیع کیا اور ایک کامیاب فاتح حکمران کے طور پر شہرت حاصل کی بلکہ ان مفتوحہ ممالک میں جو انقلابی اقدامات اور اصلاحات نافذ کیں حقیقت میں وہ آپ کو تاریخ اسلام میں ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کا سب سے بڑا سبب صدق، جودو سخا، عفو و درگزر اور عدل و انصاف ہے۔ یہی وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں جنہوں نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دنیائے عالم کا سب سے کامیاب فاتح بنادیا۔ جن کی فتوحات کے سامنے جدید دنیا کے تمام فاتحین کی فتوحات ہیچ نظر آتی ہیں۔ اس لئے کہ جو بھی فاتح آیا اُس نے فتح کے نشہ میں چور ہوکر مردو زن غلام بناکر بیچ ڈالے یا ان کے سرقلم کرکے چوراہوں پر لٹکادیئے۔ شہروں کے شہر جلا کر راکھ کردیئے، خون کی ندیاں بہادیں، سروں کے مینار بناڈالے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کو دیکھیں تو جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا، آج تک وہاں اسلام کا پرچم لہرارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح کرتے وہاں عدل و انصاف کو رائج کرتے۔۔۔ عفو و درگزر اور بردباری سے کام لیتے۔۔۔ امیرو غریب اور شاہ و گدا میں امتیاز نہ کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واحد وہ فاتح ہیں، جنہوں نے اپنے عہد خلافت میں کسی جنگ میں شرکت نہ کی لیکن ہر لشکر کا کنٹرول آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں بیٹھ کر لشکر کی کمان کرتے اور ہدایات جاری کرتے۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ
’’آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ عالم کے منفرد سپہ سالار تھے کہ جنہوں نے اپنی فراست اور حسن تدبر سے اسلامی لشکر کی بغیر شرکت، کمان کی اور بڑی بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ کیونکہ ان کی ذات میں سیاسی و انتظامی بصیرت اور مومنانہ فراست کا بڑا عمل دخل تھا‘‘۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات محض مادی وسائل، افرادی قوت یا آلات جنگ کی کثرت پر منحصر نہ تھیں بلکہ ان میں آپ کا صاحبِ بصیرت اور روحانی تصرف کا حامل ہونا بھی کار فرما تھا۔ حتی کہ آپ مدینہ میں بیٹھے میدان جنگ کو دیکھ رہے ہوتے اور بعض اوقات ہزاروں میل دور موجود لشکر کو ہدایات بھی جاری فرماتے۔
ایک بار مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک خطبہ ترک کرکے تین بار پکار کر کہا: ’’یاساریۃ الجبل‘‘ اس کے بعد دوبارہ خطبہ دینے لگے۔ جمعۃ المبارک کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چہ مہ گوئیاں شروع کردیں کہ امیرالمومنین نے دوران خطبہ بے ربط جملے بولے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکتہ چینی سے آگاہ کیا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: واللہ دوران خطبہ میں یہ دیکھ کر بے قرار ہوگیا کہ ساریہ اور اس کے ساتھی دشمن کے گھیرے میں آرہے تھے، اس لئے میں نے ساریہ کو متنبہ کیا کہ اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھیجا ہوا قاصد خط لے کر مدینہ پہنچا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ جمعۃ المبارک کو دشمن نے ہم پر حملہ کیا۔ ہم نے ان سے لڑنا شروع کیا یہاں تک کہ نماز جمعہ کا وقت ہوگیا۔ پس اس وقت ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جس نے پکارا ’’الجبل‘‘ ’’ الجبل‘‘ اس وقت ہم تباہی کے قریب پہنچے ہوئے تھے۔ یہ آواز سن کر ہم پہاڑ کے دامن میں چلے گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو فتح عطا فرمائی۔
(تاريخ طبری)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق بولتا تھا۔ آپ الہامی شخصیت کے مالک تھے، جو سوچتے، وہ ہوجاتا تھا۔ قرآن اور حدیث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے میں موافقت کرتے۔ آیت حجاب، مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے متعلق، واقعہ ایلائ، جنگی قیدیوں سے سلوک، منافق کی نماز جنازہ، حرمت شراب، توریت کی آیت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام، اذان کے حکم کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق ہونا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دعائے برکت کے سلسلے میں آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر عمل کرنا، جنت کی بشارت دینے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشورہ قبول کرنا، فرض اور نوافل کو الگ الگ رکھنے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمانا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روحانیت کا مظہر ہونے کے دلائل ہیں۔ سترہ کے قریب ایسی قرآنی آیات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوئیں۔الغرض عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت اور خلافت ہمارے لے ایک عظیم سبق ہے۔
مصنف:- انجینیر عارف رمضان
0 Comment:
Post a Comment